تعلیم: مشل-مریم ملاقات اور میڈیا کا کردار

Oct 26, 2015

نعیم مسعود

اس سے قبل کہ میں ”تعلیم میں میڈیا“ کا کردار تلاش کرتا، میرا دھیان ”میڈیا میں تعلیم“ کے کردار کی جانب چلا گیا۔ جہاں کسی ریاست میں اب مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے سنگ سنگ میڈیا چوتھا ستون ہو گیا ہے وہاں جب تک چاروں ستونوں کی بنیادوں میں تعلیم کا راج اور تربیت کا عنصر نہیں ہو گا، سمجھ لیں! قوم اہداف سے بہت دور ہے۔ تعلیم، فراہمی انصاف اور ہیلتھ سروسز کا کسی ملک میں عام ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ قوم ترقی یافتہ ہے۔ ان تینوں چیزوں کی فراہمی میں میڈیا اگر اپنا کردار ادا نہیں کرتا تو سمجھ لیں میڈیا بدکردار ہے۔ میڈیا تو نام ہی بناﺅ کاہے بگاڑ کا نہیں!!
جس طرح ذولفقار علی بھٹو نے بطور خاص بے نظیر بھٹو کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا، اور بعد ازاں زرداری صاحب بھی آصفہ کے معاملہ میں ایسے ہی وچار رکھتے ہیں اور یہی سلسلہ بلاول بھٹو کےلئے بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ آج میاں محمد نواز شریف ذوالفقار علی بھٹو کی ”سیاسی سنت“ پر عمل پیرا ہیں۔میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادے چونکہ سیاسی تعلیم و تربیت کے بجائے کاروباری طبیعت کے حامل ہیں اور شہباز شریف کے صاحبزادگان حمزہ شہباز اور سلمان شہباز علوم سیاست کو کچھ ”زیادہ“ ہی پڑھ گئے اور پڑ گئے۔ ظاہر ہے پھر بڑے میاں صاحب کے پاس اور کوئی چناﺅں نہیں تھا۔ کہنے والے تو جہاں یہ کہتے ہیں کہ مریم نواز کو خود امریکہ بھی آگے لانا چاہتا ہے، وہاں یہ بھی بازگشت ہے کہ مریم نواز کو امریکی دعوت ہی نہیں تھی۔ خیر دعوت تھی یا نہیں یہ مسئلہ امریکی سفارت خانہ حل کرے نہ کرے تاہم اوبامہ کے جنوبی ایشیا کے خصوصی کارندے ڈاکٹر پٹر لیوائے نے یقینا حل کر دیا کہ خاندان شریف میں مریم نواز ہی باصلاحیت فرد اور مستقبل کا سیاسی و خارجی مہرہ ہیں لیکن یہ ابھی کہنا قبل از وقت ہو گا کہ امریکہ مستقبل کی سیاست میں مریم نواز کے کردار کا خواہاں ہے یا نہیں!! رہی بات دورہ پر تعلیم کے ذکر خیر کی تو اس موقع پر بیگم مشل اوبامہ اور دختر اوّل کے مابین گفتگو کےلئے اور تھا بھی کیا؟
عام آدمی کی تعلیم و تربیت اور مریم نواز و آصفہ زرداری جیسے خواص کی تعلیم و تربیت میں اسی طرح فرق رہتا ہے جس طرح محمود و ایاز میں فرق لازم ہے۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے اور یہی مساوی تعلیم کا فقدان، اور یہی وہ نکات ہیں فراہمی انصاف، فراہمی تعلیم اور فراہمی صحت سہولیات کے جو میڈیا اکثر فراموش کر دیتا ہے۔ غالب کا ایک شعر یہاںبلاواسطہ میڈیا کی نذر اور بالواسطہ میڈیا گروں (اطلاعاتی گروﺅں) کی نذر ہے:
یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ہاں ! واضح رہے کہ پچھلے دنوں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل کیمپس لاہور کے سیمینار ”تعلیم میں میڈیا کا کردار“ کے انعقاد کو بھی میں نے زیر بحث لانا ہے لیکن اسی کردار کی بین الاقوامیت کا معاملہ یہ ہے کہ، اگر یونیورسٹیوں کے ذاتی میڈیا سیلز اور پی آر او حضرات کی رپورٹس اور پریس ریلیز دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری ہائیر ایجوکیشن 22ویں اور 23ویں صدی میں چھلانگ لگا چکی ہے اور اگر حقیقی میڈیا کی اطلاعات و نشریات پر غور کریں تو ہم ترقی یافتہ ممالک سے دو صدیاں پیچھے کہیں 18ویں اور 19ویں صدی میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ دوسری جانب میڈیا کو دیکھیں تو احساس یہ ہوتا ہے کہ اسے تعلیم میں کردار ادا کرنے سے قبل خود تعلیم کی اشد ضرورت ہے جس طرح کسی جسم میں وٹامنز اور آئیوڈین کی کمی ہو تو جسم لاغر ہو جاتا ہے اسی طرح میڈیا کے بدن میں تعلیمی آئیڈین اور منرلز کی شدید کمی ہے۔ ایک طرف تعلیم کی تحقیق میں اگر ریسرچ اور ٹیکنالوجی ہم آہنگ نہیں اور اپلائیڈ ریسرچ کی کمی ہے تو دوسری طرف میڈیا تعلیم کو کم ہی سہی دس یا پندرہ فیصد بھی جگہ نہیں دیتا۔ مغرب اور چائنہ و ملائشیا کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میڈیا کرتا ہے یعنی ٹائمز ہائیر ایجوکیشن، ARWU (شنگھائی رینکنگ)، Q.S اور اس پر دی اکانومسٹ، دی ٹیلی گراف اور دی کرونکل آنکھ رکھتے ہیں۔ اس قدر ذمہ دار ہیں کہ تھرڈ پارٹی گردانے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں بڑے بڑے ایڈیٹرز اور مجھ سمیت کئی کالم نگار پسند و ناپسند کی بنیاد پر راگ الاپتے رہتے ہیں۔ تحقیق کے بجائے میڈیا بھی سنی سنائی پر یقین کر لے تو ذمہ داری کہاں ملے گی؟ جب میڈیا ہی اپنا کردار احسن انداز سے نہ نبھائے تو پھر ایچ ای سی رینکنگ نہ کرے تو کون کرے گا۔
پھر افسوس سے کہتا ہوں کہ سائنس دان بھی سیاستدانوں کی طرح جہاں چکر دینے لگیں وہاں جمہوریت کیا اور ریسرچ کیا۔ یا سر پیرزادہ درست کہتا ہے کہ سادہ سی تحقیق کے بھی دریچے بند ہیں کسی یونیورسٹی میں اتنی سکت نہیں ڈیٹا فراہم کردے کہ افغان جنگ میں یا دہشت گردی کی جنگ میں کتنے کتنے لوگ پیوند خاک ہوئے۔ یہ تو واقعی کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ کوئی سوشل سائنسدان یا ماہر تعلیم یہ سادہ سی ریسرچ ہی بتا دے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی ایچ ای سی درست ہیں یا مرکزی؟ دونوں درست ہیں تو کام کیسے کریں؟
راقم بھی کئی سال اسی چکر میں چکرا رہا ہے کہ تحقیق کے نام پر جامعات کے میڈیا سنٹرز شور و غل کرکے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اگلی ٹرم دلوانے کے چکر میں رہتے ہیں جس میں ڈاکٹر مجاہد منصوری بھی پیش پیش ہوتے ہیں اور کئی نعیم مسعود بھی!! کوئی وائس چانسلر اپنے حق میں کالم لکھواتا ہے اور کوئی اپنے نام سے ۔ اور یونیورسٹیاں تحقیق سے بے نیاز۔ یونیورسٹیاں پیسہ کما کر نہ دیں، یہ ان کا کام نہیں، نہ وائس چانسلز کا کام۔ ایسا کرنا ہے تو پنجاب یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی اپنی زمین پر چاروں طرف کی سڑکوں پر کمرشل پلازے بنا لیں تو ہر ماہ نوٹوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ غور کریں! وارک (U.K)، (Warwick University) میں اکنامکس کے 26 فل پروفیسر ہیں اور پاکستان میں ہم اکنامک، اکنامک کو یہ باور اور کامرس کامرس کرتے ہیں چراغ لے کر ڈھونیں گے تو لاہور کی 20یونیورسٹیوں میں 3فل پروفیسرنہیں ملیں گے۔ ہے کوئی یونیورسٹی جو سستی ادویہ کے نئے فارمولے سامنے لائے یا کوئی سستی بجلی بنائے؟ بائیوٹیکنالوجی کی اے بی سی میں گم ترقی یافتہ ممالک میں جا کر دیکھیں لوگ ایکس وائی زیڈ سے آگے جانے والے ہیں۔ ہے کوئی سستی ویکسین یا جاپان کی طرز کے پھلدار پودے اور فصلیں؟ بیورو کریٹس اور وزراءسے زیادہ موجیں ہیں یونیورسٹیوں کے سائنسدانوں اور پروفیسروں کی لیکن بنا باپڑھایا کچھ بھی نہ گلاس توڑا بارہ آنے۔
مریم جی! مشل کی تعلیم پہلے ہی سبحان اللہ ہے۔ یہاں کی تعلیم کو ”تربیت“ کی ضرورت ہے۔ لائی ہیں کوئی ویژن؟ کوئی 2010 یا 2025ءکا سیاسی ویژن نہیں۔ ہے کوئی تعلیمی ویژن تو بسم اللہ!!!
تذکرہ پہلے ضروری ہے کہ تربیت کے حوالے سے ایک اہم بات عرض کر دوں کہ امریکہ وہ ملک ہے جس کی ہمیشہ یہ خواہش صدر ایوب سے تا حال یہی رہی کہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خزانہ تک اس کی مرضی کے بندے ہوں بلکہ سیکنڈ لائن اور تھرڈ لائن کے حوالوں سے بھی اس کی نظر اللہ کے بندوں کی بجائے ”امریکی بندوں، کی متلاشی رہی اور رہتی ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایوب خان سے بھٹو تک، بے نظیر بھٹو سے مشرف تک حتی کہ میاں نواز شریف تک یہ سب لوگ اعصابی توانائی اور ہمہ جہتی فہم و فراست سے مالا مال اپنے تو امریکی چشم بینا پھر اپنی نگاہوں کا مرکز کسی مخصوص فرد کو بناتی جو ان کے وفود کا اہم حصہ ہوتا۔ تاکہ وہ بات جو کہنہ مشق لیڈران سے نہیں نکلوائی جا سکتی کسی اور سے نکلوا لی جائے!! میں اس ضمن میں زیادہ تو کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن صاحبان نظر کے لب پر یہ بات ضرور تھی کہ اوبامہ کے کارندہ خاص برائے جوہری توانائی و جنوبی ایشیا ڈاکٹر پیٹر لیوائے (Peter Lavoy) نے مریم نواز کو خصوصی اہمیت دی اور دلوائی۔
بہرحال میرا یہ حسن ظنی اس بات پر پکا ہے کہ ڈاکٹر پیٹر کچھ بھی کر لیں مریم نواز کی تعلیم و تربیت کچھ نہیں ہے۔ باوجود حسن ظن کے مریم صاحبہ سے یہ عرض کروں گا کہ بیگم اوبامہ کو کیا معلوم ہے کہ پاکستان میں احوال نسواں اور تعلیم نسواں کیا ہے۔ چلیں ڈنگ ٹپاﺅ مہم کے تحت ذکر تعلیم بھی جزاک اللہ۔ لیکن آپ نے تعلیم کا بیڑچاہتے نہ چاہتے اٹھا ہی لیا ہے تو بات کو تقسیم لیپ ٹاپ سے ذرا آگے بڑھائیں۔ قوم آپ کی شکر گزار ہو گی ۔ کوئی بات نہیں وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمن دورہ میں ساتھ نہیں تھے لیکن واپسی پر ان سے رابطہ تو رکھیے گا لیکن ایسا نہیں جو حمزہ شہباز کا رانا مشہور اور قائم علی شاہ کا کھوڑو سے ہے بلکہ ایسا جو عمران خان کا مشتاق غنی سے ہے۔ اب مجھے یہ تازہ تازہ علم ہوا کہ مریم نواز شریف کو تعلیم سے دلچسپی ہے، پھر میڈیا سے بھی خوب آشنا ہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ٹویٹ تو ان کے ہٹ جاتے ہیں اور انہوں نے امریکی مہمان نوازی کی تعریف و توصیف کی حد بھی کر دی۔ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور بلیغ الرحمن و نثار کھوڑو و رانا مشہود و مشتاق غنی تو بارہا مخاطب کرکے دیکھ لیا ہم نے۔ لیں! آج مریم نواز کے حضور متذکرہ سیمینار کی سمری رکھتے ہیں۔

مزیدخبریں