عالمی شاطر میدان اقتدار و حاکمیت کے مہروں کو بساطِ شطرنج پر اس طرح سے بچھاتا ہے کہ قیاس آرائیاں‘ پیشن گوئیاں‘ اُمیدیں‘ اندازے اور جذباتی تلاطم خیزیاں دم توڑ جاتی ہیں کیونکہ پھر جمہوری اور آمرانہ طرزِحکومت میں بھی امتیاز مٹا دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کی آڑ میں زرداری کو اپنے مفادات کے نگران آمر مشرف کو کروڑوں عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ عالمی آمر پہ کوئی ضابطہ‘ کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر پانامہ جو پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے‘ یہ ریاست نما چھوٹا سا ملک پہلے سپین کے قبضے میں تھا۔ 1921ء سے آزاد ہونے کے بعد کولمبیا کے زیراثر رہ کر 1903ء میں آزاد ہوا۔ اسے دنیا کے ممالک ری پبلک آف پانامہ کے نام سے جانتے ہیں۔ چونکہ اس بدبخت ملک میں بھی ریفائن آئل موجود ہے۔ چونتیس چونتیس لاکھ کا چھوٹا سا ننھا ملک امریکہ کے ساتھ جغرافیائی طورپر منسلک ہے۔ 2014ء سے اس ملک کا صدر Jona Carlos Varela ہے بلکہ تھا۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے پچھلے دنوں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ ملک پانامہ پر امریکہ نے صدارتی محل پر حملہ کیا اور اس کے صدر (وریلہ) کو بے ہوش کرکے امریکہ لے گئے اور ابھی تک وہ اسکے قبضے میں ہے۔ عالمی دانشور‘ سیاستدان‘ حکمران امریکہ سے پوچھیں کہ یہ عالمی دہشت گردی کیوں کی گئی؟ اور ایک ملک نے دوسرے چھوٹے ہمسایہ ملک پر کس قانون کے تحت قبضہ کیا؟ پانامہ پر قبضے کے بعد پانامہ لیکس کی خبروں نے پاکستانی سیاست میں تہلکہ خیزی کا ایسا آغاز کیا کہ اس کا اختتام مشکوک اور اتنا طویل ہو گیا کہ ہیجان خیزی‘ بدتمیزی نے اخلاقی دیوالیہ پن کی وجہ سے سیاسی بازی گروں کی اخلاقی اقدار کو بھی گہنا دیا۔ اس طرح سے ہم نے اپنی سادہ لوحی‘ نادانی‘ کم عقلی اور ناعاقبت اندیشی کی بدولت‘ شاعر نئر کے خیالِ آمد و آورد …؎
کھو دیئے سب راز دار و چارہ ساز
دشمنوں کو معتبر کرتے گئے!
جہاں تک ملک کے بیشتر لکھنے والوں کا تعلق ہے ‘ وہ شخصیت پرستی کے سُخر سے پاک ہوکر پاکستان کے مفادات پر مر مٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور کسی بھی سیاستدان کے مثبت کام کے معترف اور منفی عمل کے مخالف ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں درسی کتب میں آیاتِ جہاد کو مشرف دور میں بے حمیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفاکانہ طریقے سے نکالا گیا تھا۔ عمران کو اس کو دوبارہ نصاب میں شامل کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر اس آمر کے نکتہ چیں ہیں کہ قرآن پاک میں جہاد نفس پہ سب سے زیادہ زور دیا گیاہے۔ نشہ کرکے نماز بھی ادا نہیں کی جا سکتی۔ کوکین پینے کے الزامات‘ سرعام لگائے جاتے ہیں مگر انصاف والے اس معاملے میں انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسکی تردید کیوں نہیں کرتے؟ اسلام سرعام رقص و سرود کی اجازت نہیں دیتا۔ کلثوم نواز اور مریم کا سر پہ دوپٹہ لینا پوری قوم کو پسند ہے۔ سراج الحق نے لاکھوں کا مجمع جمع کرکے خواتین اور موسیقی و سرود کے بغیر جلسہ کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ عمران ان احکام الٰہی پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ اگر معاملا ت ملک کی سب سے بڑی عدالت میں سماعت کیلئے پہنچ جائیں‘ اس پر یہ تبصر کرنا کہ چاہے آسمان گر پڑے‘ دھرنا ضرور دوں گا۔ یہ بھی تحریک انصاف کا عدالت عظمیٰ پہ حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
عمران نے اپنے صوبے میں کروڑوں پودے لگانے کا اعلان کیا اور شجرکاری مہم کے تحت پودے لگائے بھی گئے مگر اسکی حفاظت نہ کی جا سکی اور ’’بُوٹے پُٹ دیئے گئے‘ جو پودے کی حفاظت نہ کر سکا‘ وہ کروڑوں انسانوں کی حفاظت کی ذمہ داری کیسے لے سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے بارے میں بہت سے معاملات میں میرا نکتۂ نظر تنقیدانہ ہے۔ مودی سے ملاقاتوں کا شوق تو عمران بھی پورا کر چکے ہیں اور امریکہ کی یاترہ تو عمران بھی زرداری کی طرح اکثر کر لیتے ہیں۔ مجھے دھرنے کی بہت خوشی اس لئے ہے کہ قوم جس کرب اور عذاب میں مبتلاہے‘ 2 نومبر کو اُسے اِس سے یہ تو پتہ چل جائیگا کہ عمران کی پشت پر کونسا بیرونی ہاتھ ہے۔ اندرونی ہاتھ کا تو سب کو پتہ ہے مگر اب وہ فعال نہیں رہا مگر علامہ اقبال بھی اس مسئلے پہ کچھ فلسفیانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیںکہ …؎
ترا وجود سراپا تجلی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر