سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کو رضاکارانہ رقوم کی واپسی اور پلی بارگین کے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ رقوم واپس کرنے والے اہم افسروں کیخلاف فوری کارروائی کی جائے۔ پانچ صفحات پر مشتمل عدالت عظمیٰ کا فیصلہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے تحریر کیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے نیب کی طرف سے کرپشن کرنے والوں سے رقوم کا کچھ حصہ لے کر انہیں سرکاری عہدوں پر دوبارہ بحال کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا یہ خطرناک صورتحال ہے کہ نیب کی طرف سے قسطوں میں یا یکمشت وصول کی گئی رقوم متعلقہ حکومتی محکمے میں جمع نہیں کرائی جاتیں جبکہ قواعد کی آڑ میں یہ رقوم نیب کے افسروں کو نوازنے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل نیب نے رضاکارانہ طور پر وصول کی گئی رقوم کی تفصیلات جمع کرائی ہیں اور پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا نیب اپنے افسروں میں تقسیم کیلئے رقم اپنے پاس نہیں رکھتا۔ عدالت نے نیب کو حکم دیا۔ گزشتہ 10 سال کے دوران جو رقوم ادارے نے برآمد کی ہیں اور جو رقوم حکومتوں کے کھاتوں میں جمع کرائی گئی ہیں انکی تفصیلات 5 نومبر تک عدالت میں جمع کرائی جائیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ نیب کی طرف سے جمع کرائے گئے جواب کی نقول اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبائی چیف سیکرٹریز کو فراہم کریں۔ عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی ہے کہ سرکاری محکموں کے وہ افراد جنہوں نے رضاکارانہ طور پر رقوم واپس کیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کر کے آئندہ سماعت سے قبل تحریری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔ عدالت نے قرار دیا چیئرمین نیب یا انکی طرف سے بااختیار بنائے گئے افسر رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی کے حوالے سے نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 پر عملدرآمد نہیں کرینگے۔ عدالت نے مقدمہ کو دوبارہ 7 نومبر کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو سرکاری افسر یا ملازمین کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں ان کیخلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو کہ انتہائی بدقسمتی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا جو شخص ایک دفعہ کرپشن کرتے ہوئے پکڑا جائے وہ رضاکارانہ طور پر رقم واپس کر کے کوئی بھی سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتا کیونکہ رضاکارانہ طور پر رقوم کی واپسی (مس کنڈکٹ) کے زمرے میں آتی ہے۔ عدالت نے کہا نیب کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ بتاتی ہے کہ سینکڑوں سرکاری ملازمین اور دیگر لوگوں نے سیکشن 25 کے تحت رقوم جمع کرائیں اور ابھی تک اپنے عہدوں پر براجمان ہیں اور انکے خلاف کوئی بھی ایکشن نہ لینے کی وجہ سے کرپشن میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے کہا کہ محکمانہ حکام نے بھی نیب کو ایک راستہ فراہم کرکے کرپشن میں اضافے میں معاونت کی ہے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس نے 9 ستمبر کو اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر ازخود نوٹس لے کر اس کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا اور چوبیس اکتوبر کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مختصر فیصلہ سنایا تھا۔ بدھ کو عدالت عظمیٰ نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا چیئرمین نیب نے اس اختیار کا بے دریغ استعمال کیا۔ کرپشن کئی گنا بڑھ گئی۔ نیب قانون کے سیکشن 25 اے کے تحت لوٹی گئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بدعنوان عناصر کو کلین چٹ دینے کے مترادف ہے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور چیف سیکرٹریز اس قانون سے فائدہ اٹھانے والے افسروں کیخلاف فوری کارروائی کریں۔