ڈینگی نے ایک خوف کی شکل اختیار کررکھی ہے لیکن اگر ہم سب انفرادی طور پر اپنے اپنے گھروں‘ محلوں‘ دکانوں دفاتروغیرہ میںاس کے خاتمہ کے لئے حکومت کی بتائی ہوئی تدابیر پر عمل کریں تو اس سے بچا جاسکتا ہے۔ڈینگی کا مرض ایک مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جس کی دو اقسام ہیں ،جن کو ایڈس ایجپٹی اور ایڈس البوپکٹس کہا جاتا ہے ۔کالی اور سفید دھاریوں کی بنا پر انہیں شیر مچھر بھی کہا جاتا ہے یہ عام طور پر دن کے اوقات میں کاٹتے ہیں اور صاف پانی میں انڈے دیتے ہیں ۔ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے 80فیصد مریضوں میںمرض کی بہت معمولی علامات ہوتی ہیں ہوتی ہیں حتٰی کہ کچھ میں بخار تک نہیں ہوتا ،عام طور پر مریضوں کی اکثریت میں معمولی نوعیت کی علامات ہوتی ہیں جبکہ دیگر 20 فیصد مریضوں میں مرض زیادہ شدت سے حملہ کرتا ہے اور بہت کم مریض ایسے ہوں گے جن کے لئے یہ جان لیوا ثابت ہو۔عام طور پر مریضوں میں پائی جانے والی علامتوں میں 3تا7یوم پر محیط شدید بخار ،انتہائی شدید سر درد ،ہڈیوں اور جوڑوں میں درد اور آنکھوں کے پیچھے تکلیف کی شکایت شامل ہے۔ ڈینگی بخار وائرس سے پھیلانے والا مرض ہے جس کی چار مختلف اقسام ہیں یہ وائرس مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ مرض گرم مرطوب خطوں میں پایا جاتا ہے۔یہ مرض سار ا سال جاری رہ سکتا ہے مگر گرم بارشی موسم میں اس کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ڈینگی کے مریض کا کوئی خاص علاج نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی احتیاط یہ ہے کہ مچھر کے کاٹنے سے بچا جائے۔ اس مچھر کے لئے مچھر بھگائو لوشن اور مچھر دانی کا استعمال موزوں ہے۔ اسی طرح مچھروں اور ان کے لاروا کو ختم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے مچھر مار سپرے کیا جائے اور کھلے پانی کے جوہڑوں کو ختم کیا جائے۔ اگر یہ مرض پیرا سیٹا مول سے ٹھیک نہ ہو توایسی صورت میں پیرا سیٹا مول کے ساتھ تازہ پانی کی پٹیاں استعمال کی جائیں اور اسپرین اور سٹیرائیڈ اور درد کم کرنے والی ادویات استعمال نہ کی جائیں۔ڈینگی کے مریض کے لئے مونگ کی دال کا سوپ مناسب رہے گا ،منہ کے ذریعے لی جانے والی ہلکی غذائی اشیاء اور تازہ جوسز مناسب ہوں گے۔چاکلیٹ اور سرخ رنگ کے مشروبات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تھوڑی بہت بلیڈنگ ڈینگی کے بخار کے دوران ہو سکتی ہے یہ مرض کی شدت کے دوران بھی جاری رہ سکتی ہے ۔شدید بلیڈنگ کی صورت میں خون کی فراہمی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ مرض کے حملہ آور ہونے کے دوسرے دن سے ساتویں یوم کے دوران جسم پر خسرہ کی طرح کے دانے نکل آتے ہیں اس دوران انتہائی چھوٹے چھوٹے سرخ دھبے بھی ظاہر ہو نا شروع ہو جاتے ہیں جو جلد کو دبانے سے ختم نہیں ہوتے۔ یہ شریانوں میں توڑ پھوڑ کی بنا پر رونما ہوتے ہیں۔ بیماری کے دوران منہ اور ناک سے خون بھی نکل سکتا ہے۔ بیماری کی مدت فیبرائیل فیز کہلاتی ہے۔عام طور پر زیادہ تر مریض ان علامتوں کے ظاہر ہونے کے چند دن بعد تندرست ہو تے ہیں۔ دیگر کیسوں میں بیماری بڑھنے کی صورت میں یہ مرض شدت اختیار کر سکتا ہے ،جس سے شدید بخار ہو سکتا ہے جو ایک تا دس یوم جاری رہ سکتا ہے۔ ڈینگی کے مریضوں میں شدید درد،مسلسل قے،پانی پینے کے باوجود پیشاب میں کمی،جسمانی سستی،سانس لینے میں شدید تکلیف اور تین یو م سے زائد ڈینگی کی علامتیں ہونے کی صورت میں ان مریضوں کو فوری طور پر ہسپتال میں داخل کرا دینا چاہیے۔اس مرض کا علاج علامتوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ مریض کا بلڈ ٹیسٹ کرے اور مرض کی شدت کا جائزہ لے۔ ان میڈیکل ٹیسٹوں کو باقاعدہ وقفے کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ انجکشن کے ذریعے ہائیڈریشن کی ضرورت صرف ایک یا دو یوم تک ہو سکتی ہے خاص طور پر جب مسلسل الٹیاں جاری رہیں یا مریض منہ کے ذریعے لیکوڈ نہ لے سکے۔ان تمام مسائل و مشکلات سے بچنے کے لئے ہم صرف اور صرف احتیاط ہی کرسکتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف کرلیا تو پھر ہم ان تمام مشکلات و مصائب سے محفوظ ہو جائیں گے۔