اسلام آباد (وقائع نگار+اے پی پی + آئی این پی + دی نیشن رپورٹ) وزےر خارجہ خواجہ آصف نے کہاہے مسلہ افغانستان فوجی کی بجائے سےاسی کوششوںسے حل ہو گا حکومت کا اقتدار امرےکہ کا مرہون منت نہےں ٹرمپ کی دھمکےوں پر مشرف کی طرح ڈھےر نہےں ہوئے پاکستان کوامرےکہ کی کسی فوجی و اقتصادی مدد کی قطعی ضرورت نہےں ہم برابری کی سطح پر تعلقات کے فروغ کے خواہاں ہےں افغانستان مےں بھارت کا سہولت کار کا کردار پاکستان کبھی تسلےم نہےں کرے گا افغانستان کے چالےس فےصد حصے پر داعش اور طالبان کا کنٹرول ہے انہےں افغانستان مےں سازشےں اور منصوبہ بندی کے لےے کسی اور جگہ کی ضرورت نہےں طالبان کے ساتھ مذاکرات کو کو امرےکہ نے سبوثاژکےا ماضی کی حکومتوں اور نام نہاد افغان جہاد کے سمجھوتوں کا خمےازہ بھگت رہے ہےں ان خےالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اےوان بالا کے اجلاس کے دوران پالےسی بےان میں کیا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ امریکہ کو بتا دیا ہے کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں، مذاکرات سے مسئلہ حل کرنا ہوگا، 21 اگست کو امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد پاکستان کی قوم پارلیمنٹ اور سلامتی کونسل نے واضح موقف اختیار کیا، ماضی کے حکمران اقتدار کے لئے امریکہ کے تابع تھے، ہم پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں، امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ سویلین اور فوجی قیادت نے مل کر مذاکرات کئے، اپنی خودمختاری اور وقار پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے، ملکی مفاد کا آخری دم تک دفاع کریں گے، ماضی کی طرح ایک دھمکی پر ڈھیر ہونے والے نہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن کسی کی پراکسی نہیں بنیں گے، افغان مسئلہ کے حل کے لئے خطے کے ممالک کا کردار بہت اہم ہے، افغانستان میں پچھلے 16 سال کی ناکامیاں امریکہ کے سامنے ہیں۔ جنرل(ر)پرویزمشرف نے ہتھیار ڈالے ان کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے، اگر ہم رضاکارانہ طور پر افغان جنگ میں شامل نہ ہوتے اور پراکسی نہ بنے ہوتے تو آج جس مصیبت میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اس سے اﷲ تعالیٰ شاید ہمیں نجات دے دیتا۔ نائن الیون کے بعد ایک اور سمجھوتہ کیا گیا، امریکہ جو فہرستیں دیتا حکومت وقت بندے پکڑ کر ان کے حوالے کر دیتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب حکمران اشرافیہ ملک کا وقار بیچنے پر تیار ہو جائے تو وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے جو دھمکی دی تھی لیکن ہم پورے اعتماد کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا کی کسی بھی طاقت کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہم نے امریکہ سے نہ کوئی آرڈر لیا اور نہ کوئی دباﺅ قبول کیا بلکہ ایوان بالا، قومی اسمبلی اور نیشنل سکیورٹی کونسل سمیت سب اداروں نے جس طرح جواب دیا وہ پاکستان کی عزت اور وقار کے مطابق ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کو مہذب اور امن والے ملک کی طرح سکیورٹی دی گئی۔ افغانستان میں جہاں 17 ممالک کی افواج بیٹھی ہیں وہاں ملٹری بیس پر امریکی وزیر خارجہ نے اشرف غنی کو بلا کر ملاقات کی۔ افغانستان میں وہ ایئر بیس سے باہر نکل کر ملاقات نہیں کر سکتے۔ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے افغانستان میں کیا حاصل کیا ہے۔ ڈرون حملے ہماری خودمختاری کے خلاف ہیں۔ ہم نے ان لوگوں کا صفایا کیا جو ان حملوں کا سبب بنتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو لیکن پاکستان کا مفاد اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ ایل او سی اور ورکنگ باﺅنڈری کی جتنی خلاف ورزی ہوتی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ افغانستان بھارت کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے، یہ ہمیں قابل قبول نہیں۔ بھارت کا بحریہ کا افسر کلبھوشن ہم نے پکڑا ہے، پاکستان کے امن کو تہہ وبالا کرنے کی منصوبہ بندی افغانستان سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کافی علاقہ ہے جو امریکہ کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ ہم خوددار قوم ہیں، ہماری قوم، افواج، رینجرز، پولیس نے قربانیاں دی ہیں، ان کے صلے میں ہمیں کامیابیاں ملی ہیں۔ پاکستان میں تمام ادارے ایک ہی حقیقت تلے بیٹھ کر امریکی وزیر خارجہ سے بات کر رہے ہیں اور سویلین اور فوجی قیادت کی طرف سے چھ افراد نے مذاکرات میں حصہ لیا، ہم نے امریکہ سے کہا ہے کہ قابل کارروائی خفیہ معلومات دیں، ہم کارروائی کریں گے۔ امریکہ کی پراکسی بن کر کام کرنا ہمیں قبول نہیں، اپنی خودمختاری اور وقار پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت، ہمارے ادارے، پارلیمنٹ، افواج پاکستان ملک کے مفاد کا آخری دم تک دفاع کریں گے۔ طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ ختم ہو چکا ہے، اب انہوں نے اپنی کفالت کے لئے اور لوگ ڈھونڈ لئے ہیں، امریکہ کے ساتھ اچھے ماحول میں بات ہوئی، کوئی الزام تراشی نہیں ہوئی، امریکہ کی طرف سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھی تفصیلات سے آگاہ کروں گا، اتفاق رائے سے جو م¶قف سامنے آئے گا، وہی حکومتی پالیسی ہوگی۔ کسی امریکی عہدیدار نے کوئی غلط زبان استعمال کی ہے تو زبان ہمارے پاس بھی ہے، احتیاط سے کام لینا ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں۔ پرانے دوستوں جن کے لئے ہم نے خدمات انجام دیں، انہوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ دہشت گردی اور توانائی کے بحران میں کمی ہوئی ہے اور یہ کامیابیاں ہم نے خود حاصل کی ہیں۔ امریکہ نے مذاکرات کے دوران زیادہ زور حقانی نیٹ ورک پر دیا۔اعتزازاحسن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ نے پروفیسر حافظ سعید سمیت کسی پاکستانی کا نام نہیں لیا جو 75 افراد کی فہرست دی ہے وہ تمام طالبان قیادت سے متعلق ہے۔ امریکہ نے بات چیت میں پاکستان کے کسی علاقے، کسی مقام کا نام نہیں لیا۔ امریکہ طالبان کو سیاسی قوت تسلیم کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کے لئے تیار ہے مگر حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ جب تک وہ تشدد کا راستہ ترک نہیں کرے گا اس سے بات چیت نہیں ہو سکے گی۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بھی مطلوب افراد کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ ہمیں جو فہرست دی گئی ہے اس میں بہت سے لوگ مر چکے، بہت سے لوگ افغانستان میں طالبان کے شیڈو گورنرز ہیں، امریکہ نے کوئٹہ، پشاور، پنجاب، فاٹا سمیت کسی جگہ کا نام نہیں لیا اور جب امریکی کمانڈر نے کوئٹہ شوریٰ کی بات کی اور جب ہم نے کہا کہ اس کا ایڈریس بتا دیں تو آج تک امریکہ ایسا نہیں کر سکا۔ ہماری طرف سے واضح کر دیا گیا کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے میں سب سے زیادہ کردار بھارت کا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ٹرلسن نے حافظ سعید کے حوالے سے کوئی بات نہیںکی۔ آئی این پی کے مطابق خواجہ آصف نے کہا پاکستان میں دیرپا امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے، ہم نے بھی دہشت گردی کے حوالے سے مطلوب 100افراد کی فہرست امریکہ اور افغانستان کے حوالے کی ہے،امریکہ پر واضح کیا ہے کہا بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار قبول نہیں،جنرل مشرف نے 9/11 کے موقع پر ہتھیار ڈالے، یہ جتنے بھی سمجھوتے کئے گئے ان کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا امریکہ کے ساتھ تعلقات 70 سال پرانے ہیں۔ مناسب ہوگا نائن الیون کے بعد ہونے والے معاہدے کے معاملے پر ایوان میں بحث ہو جس سے ہمارے لئے رہنمائی ہوگی۔
اقتدار امریکہ کے مرہون منت نہیں‘ مشرف کا معاہدہ بھگت رہے ہیں : خواجہ آصف‘ واضح کر دیا کسی پراکسی کا حصہ نہیں بنیں گے‘ 75 کے بدلے100 مطلوب افراد کی فہرست دی
Oct 26, 2017