اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ بی بی سی) سپریم کورٹ آف پاکستان میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرار دینے سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جہانگیر ترین 18 ہزار ایکڑ زرعی اراضی سے اربوں روپے کماتے رہے لیکن مصدقہ سرکاری دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ عدالت نے جہانگیرترین اور انکے بچوں کے درمیان تحائف کے تبادلوں پر بھی سخت سوالات اٹھا دیئے۔ جسٹس فیصل عرب بولے تعجب ہے جہانگیرترین نے 2011ءمیں بچوں کو 109 ملین روپے کے تحائف دیئے، اسی سال جہانگیر ترین نے 2.5 ملین پاو¿نڈ ز بچوں کو دیئے، ایک امیر شخص کو کروڑوں روپے کے تحائف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ جہانگیر تر ین کے وکیل نے بھی انکشاف کر ڈالا کہ جہانگیر ترین کی اہلیہ شائینی ویوز لمیٹڈ آف شور کمپنی کی بینیفیشری ہیں۔ دوران سماعت جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل میں کہا کہ برطانیہ جائیداد کی خریداری اور تعمیر کے اخراجات کی تفصیلات فراہم کی تھیں، جائیداد خریداری کیلئے تمام رقوم بنکنگ چینل سے منتقل کی گئیں، جہانگیر ترین نے تین مرتبہ پاکستان سے لندن آف شور کمپنی کی ٹرسٹ میں رقوم منتقل کیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے مزید کہا 4اگست 2011ءکو شائینی ویوز لمیٹڈ آف شور کمپنی نے 2.1ملین پاو¿نڈز قرض لیا، آف شور کمپنی کے پاس مجموعی رقم 5.84ملین پاو¿نڈز تھی، جہانگیر ترین کا پاکستان سے باہر ذریعہ آمدن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا آپ جہانگیرترین کی طرف سے رقوم منتقلی کی سن 2011ءبتا رہے ہیں لیکن دستاویزات میں سن مختلف ہے، جہانگیرترین کی طرف سے بیرون ملک بھجوائی گئی رقوم کے بینک چیک بھی پیش کر دئے گئے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا ایسی کوئی دستاویز نہیں جس سے ظاہر ہو کہ پاکستان سے بھجوائی گئی رقوم آف شور کمپنی کے اکاو¿نٹ میں گئی،کیا جہانگیر ترین نے بیرون ملک منتقل کردہ دولت کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیں؟۔ چیف جسٹس بولے جہانگیر ترین نے جتنی رقوم پاکستان سے بھیجیں وہ شائینی ویو لمیٹڈ کے اکاو¿نٹ میں گئی، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جہانگیرترین نے پاکستان سے دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی۔ درخواست گذار حنیف عباسی کے وکیل نے کہا جہانگیرترین نے لندن میں بے نامی جائیداد خریدی۔ اس پر چیف جسٹس بولے اگر لندن جائیداد بے نامی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے کیا جہانگیر ترین نے جعلسازی یا بددیانتی یا پھر دھوکہ دہی سے کام تو نہیں لیا۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال اٹھایا ایک امیر شخص کو کروڑوں روپے کے تحائف دینے کی کیا ضرورت تھی۔ چیف جسٹس بولے سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت باپ کا بیٹے کو تحفہ دینا یا بیٹے کا باپ کو تحائف دینے کے عمل کو بددیانتی قرار دے سکتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بولے ٹیکس ریٹرن سے جہانگیر ترین کے اعداد وشمار مطابقت نہیں رکھتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جہانگیرترین نے آف شور کمپنی کے ٹرسٹ کو کبھی ظاہر نہیں کیا، اگر آپ یہ کہہ دیتے کہ 4.75 ملین پاو¿نڈز بچوں کا اثاثہ ہیں تب بھی الیکشن کمشن کے سامنے انہیں ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہر شخص گناہ کر سکتا ہے،گناہ سے کوئی شخص بھی پاک نہیں۔ عدالت نے جہانگیر ترین کے بچوں کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ طلب کر لی۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا دستاویزات سے ثابت کریں بچے جہانگیر ترین کے زیر کفالت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا پانامہ کیس اور جہانگیر ترین وعمران خان کے خلاف مقدمات میں کیا فرق ہے، پانامہ فیصلے میں کہا گیا قابل وصول تنخواہ اثاثہ ہوتا ہے،اثاثہ ظاہر نہ کرنا بددیانتی ہے، نااہل قرار دیتے ہیں۔ اس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے پانامہ کیس اور اپنے مقدمے میں فرق کچھ یوں بیان کیا کہ سپریم جورٹ نے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کے ذریعے انکوائری کروائی، جسٹس آصف کھوسہ نے پانامہ فیصلے میں تین مرتبہ لکھا نواز شریف کوئی دستاویز پیش کرنے میں ناکام رہے، جہانگیر ترین نے ٹیکس ریٹرن‘ قوانین‘ عدالتی فیصلے‘ بینک اسٹیٹمنٹ اور دستاویزی ثبوت پیش کئے، جے آیی ٹی نے شریف خاندان کے آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کی۔ وکیل جہانگیر ترین پر آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا پانامہ کیس میں عوامی عہدہ رکھنے والے پر اثاثے ظاہر نہ کرنے کا الزام تھا۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا جہانگیر ترین وزیراعظم نہیں رہے، عدالت نے کہاکہ جہانگیر ترین نے ٹرسٹ کو ظاہر نہیں کیا‘ پانامہ کیس میں بھی بینی فشل مالک کا معاملہ تھا۔ ٹرسٹ کے نام پر پراپرٹی کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ عدالت کو صرف ایمانداری کو دیکھنا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے دستاویزات سے معلوم نہیں ہوتاکہ رقم کس اکاﺅنٹ میں منتقل ہوئی۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر جہانگر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ رقم منتقلی کوٹیکس گوشواروں میں ظاہرکیا گیا۔ چیف جسٹس نے سکندر بشیرسے پوچھا آپ ہروقت کیوں پریشان رہتے ہیں؟ جس پر جہانگیر ترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ خود کو ریلیکس رکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں، آپ کی عدالت میں کسی چیز کو ہلکا نہیں لے سکتا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 31 دسمبر 2016ءسے میں بہت تبدیل ہوچکا ہوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ قرض کی ادائیگی کس نے اور کیسے کی؟ جس پر سکندر بشیر نے بتایا کہ جہانگیر ترین نے ادائیگی کے لئے رقم پاکستان سے بھجوائی تھی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کسی کی ’بددیانتی جانچنے کے ئے اس کا ذہن نہیں بلکہ عمل دیکھا جاتا ہے۔‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کے اکاﺅنٹ سے رقم شائنی ویو کو ہی منتقل ہوئی ہوگی۔ عدالت نے صرف ایمانداری کو دیکھنا ہے اکاﺅنٹس کا آڈٹ نہیں کرنا۔
سپریم کورٹ