پاک سعودی تعلقات دوستی کا ایک لازوال رشتہ۔

معاشی لحاظ سے تیل کی دولت سے مالا سعودی عرب کا عالمی سطح پر جو مقام ہے اسے پوری دنیا ہی تسلیم کرتی ہے مگر دوسری جانب مذہبی اطوار سے حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوںکا دینی مرکز سمجھا جاتاہے۔پاک سعودیہ تعلقات اگرچہ ابتدا سے ہی خوشگوار رہے ہیں مگرپاکستان کے قیام کے ابتدائی دور سے لیکر اب تک سعودی عریبیہ نے پاکستان کی سفارتی اور اقتصادی سطح پر جس انداز میں مدد کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔پاکستان اور سعودیہ عریبیہ کے دیرینہ اور گہرے تعلقات میں دونوں ممالک کے درمیان اسلامی عقیدت کا بہت بڑا کردار ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ عالمی اور علاقائی سیاست میں تبدیلیوں کے باوجود پاکستان اور سعودی عریبیہ کا رشتہ ہمیشہ مضبو ط اور مستحکم رہاہے۔ 1967میں پاکستان اور سعودیہ کے مابین فوجی تعاون کا معاہدہ طے پایا۔جس کے تحت سعودی عرب کی بری اور فضائی افواج کی تربیت کاکام پاکستان کے سپرد کیا گیا،1971 کی دہائی کے آغاز پر مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے فوراً بعد سعودیہ عریبیہ نے اپنے مثبت کردار سے پاکستان میں قومی اتحاد کی بحالی میں بہت اہم کرداراداکیا،اس موقع پر سعودی عریبیہ نے پاکستان میں نہ صرف سرمایہ کاری کی بلکہ عوامی فلاح کے کئی بڑے منصوبے بر ادرانہ محبت کی بنیاد پر شروع کیئے اور آج تک سانحہ مشترقی پاکستان کے بعد بھی سعودی عریبیہ نے بنگلہ دیش کو قبول نہیں کیا ہے،تعلقات کا یہ سلسلہ اسی زمانے سے ایک تسلسل کے ساتھ چلا آرہاہے،1973کے سیلاب میں بھی سعودی عرب کی جانب سے بھرپور مالی امداد فراہم کی گئی۔جبکہ شاہ فہد نے 1998میںپاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعدپاکستان کو کئی سال تک مفت تیل فراہم کیا۔ شاہ عبداللہ نے 2005کے زلزلے اور 2010کے سیلاب میںکسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان کی مدد کی۔یہ ہی نہیں یہ سعودی عرب کی ہی حمایت تھی کہ انہوںنے اسلامی اتحاد کے فوجی سربراہ کے لیے پاکستانی جرنیل کا انتخاب کیااور اس مقصد کے لیے جنرل (ر)راحیل شریف کا انتخاب کیا۔غرض کہ پاکستان میں جتنے بھی فرماںرواں آئے ان سب نے پاکستان سے محبت کے لازوال رشتے کو مضبوط سے مضبو ط تر بنانے کے لیے اپنا کرداراداکیایہ ہی وجہ ہے کہ آنے والی نسلیں بھی دونوں ممالک کی دوستی کی وجہ سے مستفید ہورہی ہیںکیونکہ دونوں ہی ممالک زندگی کے ہر محاز پر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔اس وقت اگر دیکھا جائے توسعودی عریبیہ میں لاکھوں پاکستانی ملازمت یا کاروبار کی صورت میں موجود ہیں اور وہاں کی حکومت اور عوام کے بھرپور تعاون کی بدولت ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں،تقریباً30 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں مزدور سے لیکرڈاکٹرز اور انجینئرز کی نوکریاں کررہے ہیں۔جبکہ کئی فلاحی اور اقتصادی منصوبے قائم کرنے کے باوجود سعودی عریبیہ آج بھی پاکستان میں معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے گوادر بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچ رہاہے۔بالکل اسی طرح ایک مذہبی رشتے کی بنیاد پر حج و عمرہ کے لیے جانے والے پاکستانیوں کا سلسلہ بھی نہایت ہی آرام دہ انداز میں چل رہاہے اس ضمن میں سعودیہ کی ایمبیسی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بھرپور تعاون بھی کرتی ہے ،عمرہ کا سلسلہ تو سارا سال ہی جاری رہتاہے یہ ہی وجہ ہے کہ دونوں ہی ممالک کی جانب سے اس کام میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔حال ہی میں ناگہانی موت کا شکار ہونے والے سعودی عرب کے قونصل جنرل عبداللہ عبدالدائم سے میری آخری ملاقات کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی جہاں وہ بین الاقوامی عمرہ فیسٹول کا افتتا ح کرنے آئے تھے اب کسی کو کیا معلوم تھاکہ سعودی قونصل جنرل اس رات کی صبح ہی رحلت فرماجائینگے۔انہوں نے اس موقع پر بھی پاکستان اور سعودی عریبیہ کے رشتے کی مضبو طی کی بات کی۔اگرچہ سعودی قونصل جنرل سے میری ملاقات کا احوال اس قدر طویل نہیں رہاہے مگر میں نے ان کو ہمیشہ ایک شفیق انسان کے طور پر پایا‘ یوں توپوری دنیا میں ہی مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے مگر پاکستان اس لحاظ سے وہ واحد ملک ہے جہاں سے سب سے زیادہ عمرہ زائرین سعودی عرب میں جاتے ہیں۔
اس بار گزشتہ سال 2016میںڈیڑھ ملین سے زیادہ پاکستانیوں نے عمرے کی سعادت حاصل کی جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور دونوں ممالک کے قریبی تعلقات کی بہترین عکاسی کرنے کے مترادف ہے۔اور یہ ہی نہیں ہر آنے والا سال زائرین عمرہ کی تعداد میں اضافے کا ہی باعث بن رہاہے ،اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توپاک سعودی تعلقات میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعودکے زمانے میں ہوا تھا ،اس کے علاوہ شاہ فیصل کے دورمیں تو دونوں ممالک کی دوستی کو بہت ہی عروج حاصل ہوا، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں سعودی عریبیہ نے اقتصادی و معاشی پروگرامو ں کا آغاز کیا بلکہ ان ہی دنوں میں سعودی عرب نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی پاکستا ن کی بھرپور حمایت کااعلان کیاتھا اور اس مقصد کے لیے آج تک پاکستان کے ساتھ ہی کھڑاہے۔دشمن چاہتاہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات کو کسی نہ کسی طرح سے پارہ پارہ کردیاجائے مگر ایسا کرنا کسی بھی لحاظ سے آسا ن کام نہیں ہے۔ہم نے دیکھا کہ کس طر ح ہمیشہ سے ہی پاکستان اور سعودی عریبیہ یک جان دوقالب کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے اور کس طرح دونوں ممالک کی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ایسے میںیہ ہی کہا جاسکتاہے کہ اللہ پاک دونوں ہی ممالک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے۔آمین

ای پیپر دی نیشن