وزیراعظم عمران خان گزشتہ روز سعودی عرب دورے پر گئے۔ اس دوران سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو تین ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج اور اسی طرح بالترتیب سالانہ تین ارب ڈالر کا پٹرول دینے کے حوالے سے عملی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ 2018ء کے حالیہ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف بالخصوص نوجوان نسل کو تبدیلی کا خواب اور پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کی صورت میں روایتی سیاست دانوں سے چھٹکارا دلانے کا نعرہ لگا کر کامیاب ہوئی ہے لیکن موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے معاشی و اقتصادی طور پر جس قسم کے مسائل سامنے آتے رہے اس پر عوام کی اکثریت ہی کی طرف سے احتجاج سامنے آتا رہا لیکن اب محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف جس تبدیلی کا نعرہ لگا رہی تھی وہ تبدیلی آئندہ کچھ عرصے میں ہمارے سامنے ہو گی۔ اس قسم کے تجزیے اور تبصرے سینئر تجزیہ نگاروں کی طرف سے بھی سامنے آ رہے ہیں جبکہ ماہرین معیشت کا موقف ہے کہ اگر آئندہ وزیراعظم عمران خان اپنے دورہ چین کے دوران بھی اس قسم کا کوئی بڑا پیکج پاکستان کے دیرینہ دوست چین سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ایک اندازے کے مطابق دو اڑھائی سالوں کے دوران پاکستان خودانحصار پذیر ہو سکتا ہے اور اس طریقے سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر وغیرہ کو مستحکم کر کے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے بھی آزاد کروایا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے وطن عزیز میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے سیاسی طور پر بالکل مفلوج سیاسی جماعت بن چکی ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) پنجاب میں شہبازشریف کے ترقیاتی منصوبوں کی بدولت 2018ء کے عام انتخابات کے دوران بھی ایک بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت قائم کرنے کے لئے مسلم لیگ(ق) اور چوہدری برادران کے سیاسی دوستوں کا سہارا لینا پڑا تھا۔ یہ ساری حالیہ تاریخ ہے لیکن تحریک انصاف کے نعرے کو عوامی سطح پر یقینی طور پر پذیرائی حاصل ہوئی اور دقیانوسی روایتی سیاست کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ان دنوں بھی عدالتوں میں منی لانڈرنگ اور مختلف مبینہ کرپشن کے کیسز میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمن کو بھی مل چکے ہیں اور مولانا فضل الرحمن صوبہ کے پی کے میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی طرح کی روایتی سیاسی جماعتوں کا دفاع کرتے کرتے خود اقتدار سے باہر ہو چکے ہیں۔ آصف علی زرداری اور مسلم لیگ(ن) دونوں جماعتیں ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے قریب ہونے کے لئے پر تول رہی ہیں کہ ایک طرف ایسی افواہیں بھی موجود ہیں کہ سندھ میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی صورت میں وہاں کی صوبائی حکومت کو گورنر راج جیسے کسی مسئلے میں الجھایا جا سکتا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب میں شہبازشریف نیب کی حراست میں ہیں۔ اس ضمن میں سپیکر پنجاب اسمبلی کا ایک انٹرویو متنازعہ انداز میں سامنے اچھل چکا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کو متحد ہونے کے لئے جس توانائی کی ضرورت ہے وہ حکومتی جماعت تحریک انصاف پورا نہیں ہونے دے گی۔ پنجاب پاکستان میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے اعتبار سے وفاق میں حکومت کرنے کی چابی ہے۔ تحریک انصاف اگر اپنی خودانحصار معیشت اور تبدیلی کے خواب کو پورا کر دیتی ہے تو ظاہری سی بات ہے کہ آئندہ نیب کیسز کے حوالے سے بدنامی کا سامنا کرنے اور دوسری طرف تحریک انصاف کی کارکردگی کی صورت میں آئندہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو بھی ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن مشکلات کا سامنا 2008ء کے عام انتخابات کے بعد 2013ء تک مسلم لیگ(ق) کو پنجاب اسمبلی میں کرنا پڑا اور بعدازاں 2013ء کے انتخابات کے نتائج پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی فتح کا اعلان کر رہے تھے۔ عمران خان کے بارے میں اتنا تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ انتھک جدوجہد کے قائل ہیں اور سیاسی مخالفین سے کسی طور پر نہ خائف ہونے والے ہیں اور نہ پیچھے ہٹنے والے ہیں۔ اس سب کے درمیان انہیں تبدیلی کے نعرے کو عملی شکل اور معیشت کو خودانحصار پذیر بنانا ہو گا جس کی جھلک غیرجانبدار ماہرین معیشت کو عمران خان کے دورہ سعودی عرب سے نظر آنے لگی ہے۔