خودکشی ناانصافی اور مایوسی کی انتہاء ہے۔ معاشرے میں ہونیوالے بے شمار خودکشی کے کیس ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ آخر اس ڈپریشن کا باعث بننے والے محرکات کیا ہیں؟ کہیں غربت کی وجہ سے غریب موت کو گلے لگا لیتا ہے تو کہیں ایک اْستاد کی مرتی ہوئی ساکھ اْسے خودکشی کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ موجودہ حالات اور زمانہ میں اْستاد کی اس قدر بے قدری ایک المیہ سے کم نہیں مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب نیب ایک اْستاد کو ہتھکڑیاں پہنا کر لے جارہی تھی اور تمام میڈیا نے اسے دْنیا بھر میں دکھایا اْس وقت اْس استاد کے چہرے کی ندامت بتا رہی تھی کہ کس طرح اْس کا دل تمام عمر کی کمائی ہوئی عزت کو خاک میں ملتا ہوا دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دوسری طرف انہی دنوں میں ایم اے او کالج میں انگریزی پڑھانے والے لیکچرار افضل محمود نے ایک خاتون طالب علم کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام اور تحقیقات کے بعد اسکے غلط ثابت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے تصدیقی خط جاری نہ کرنے پر خود کشی کرلی۔ یعنی کچھ حروف اْس کی جان بچا سکتے تھے۔ جسے وہ ثبوت کے طور پر دْنیا کو دکھا سکتا کہ وہ بے گناہ ہے۔ ورنہ جس ذہنی انتشار کاوہ شکار رہا ہوگا، جس اذیت اور شرمندگی سے اْسے معاشرہ کی نظروں میں سامنا کرنا پڑا ہوگا اْس کا ازالہ محض یہ چند الفاظ تو نہیں کرسکتے تھے لیکن اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے اْس کی یہ معمولی خواہش بھی پوری نہ کی جاسکی اس قدر دلبرداشتگی اْسے اپنی جان لینے پر مجبور کر گئی۔ مقام افسوس ہے کہ ہم حد سے زیادہ بے حس ہوچکے ہیں ہمیں کسی کی ذہنی اذیت اور زندگی سے کوئی سروکار باقی نہیں رہا۔ مجھے یہ پڑھ کر زیادہ افسوس ہوا کہ اس واقعہ کے نتیجے میں اْسکی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی،وہ مزید تنہا ہوگیا۔ ساتھی کا فرض تو ہر دْکھ سکھ میں ساتھ نبھانا ہوتا ہے۔ ابھی یہ فیصلہ تو ہونا باقی تھا کہ وہ گناہ گار ہے بھی کہ نہیں؟ ایک اْستاد بے گناہ ہونے کے باوجود گڑگڑا رہا ہے کہ میری خواہش ہے کہ یا تو تحریری طور پر مجھے ان الزامات سے بری کرنے کا خط جاری کیا جائے یا انکوائری دوبارہ کرلی جائے تاکہ میرے علاوہ باقی اساتذہ جو طلباء کے ساتھ سختی کرتے ہیں یا اْنہیں امتحان میں کارکردگی کے مطابق نمبر دیتے ہیں نہ کہ دباؤ کے تحت تو اْنہیں بھی مستقبل میں ایسے الزامات سے بچایا جاسکے۔ ایم اے او کالج ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ نے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی گواہی بھی دے دی ہے۔ الزام لگانے والی لڑکی نے کہا کہ دراصل ہماری کلاس میں حاضری کم تھی لہذا سر نے ہمارے نمبرز کاٹ لئے باقی کریکٹر کے بارے میں وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر رہی۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحبہ نے کلئیرنس لیٹر بھی جاری کردیا اور لیکچرار کے بے قصور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ لڑکی کو وارننگ جاری کی جائے اور سختی سے ڈیل کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی طالبہ کسی اْستاد پر غلط الزام نہ لگا سکے۔ اب اگلہ مرحلہ پرنسپل صاحب کا تھا کہ وہ اْستاد کو کلئیرنس لیٹر جاری کرتے لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔جس کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگرچہ اب وزیراعلیٰ نے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے چار رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی ہے اور کمیٹی کو سات روز میں انکوائری مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی مکمل اختیارات دے کر بنائی گئی ہے اور اسے ہر قسم کے ریکارڈ تک بآسانی رسائی بھی فراہم کی گئی ہے۔ ہراسمنٹ کمیٹی کی سربراہ کا کہنا ہے کہ لیکچرار کا آخری خط لے کر وہ پرنسپل کے پاس بھی گئی تھیں لیکن پرنسپل نے وہ خط وصول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب تک میں نہ کہوں اس پر کوئی کارروائی نہ کریں۔ اس سارے معاملے میں پرنسپل کا کردار انتہائی مشکوک نظر آتا ہے۔ وزیراعلیٰ کی بنائی ہوئی تحقیقاتی کمیٹی سے اْمید ہے کہ وہ اس طرف بھی توجہ دیں گے۔ کیونکہ کلئیرنس لیٹر کا جاری نہ کرنا اور طالبہ کے خلاف کسی قسم کی سرزنش یا کارروائی نہ کرنا اس معاملہ کو مشکوک بنا رہا ہے۔ کہیں یہ کسی ذاتی پرخاش کا شاخسانہ تو نہیں اور اگر ایسا ہے تو سزاوار کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہئے کہ دراصل وہ اس وقت ایک قیمتی جان کا قاتل بھی ہے کیونکہ پہلے ایک فرضی الزام لگایا جانا اور پھر اْس رپورٹ کو جس میں اْسے بے گناہ ثابت کیا گیا ہے وہ دبادینا کسی سازش کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ایک اْستاد کی بے عزتی اور اْسکے شدید ذہنی دباؤ سے بے خبر رہنا بھی مجرمانہ غفلت ہے۔ دوسرے ممالک کے ڈونرز کی وجہ سے ایم اے او کالج میں بھی داخلہ کا معیار ایجوکیشن پر رکھا گیا جس کی وجہ سے لڑکیوں کا بھی داخلہ شروع ہوگیا۔ اس سسٹم سے مرد حضرات کو الگ اور خواتین اساتذہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے بھیانک نتائج آج سامنے آبھی رہے ہیں۔ میں نے کبھی عورت کو پوری طرح مظلوم بنا کر پیش نہیں کیا۔ اگرچہ عورت عورت کی جہاں کھلی دشمن ہے دوسری طرف عورت کے حقوق کے استحصال کیلئے آواز بھی اٹھاتی نظر آتی ہے۔ یہ دوہرا معیار اور سوچ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اچھائی اور برائی کا معیار عورت یا صرف مرد سے منسوب کرنا سراس نا انصافی ہے یہ صفات دونوں طرف فی زمانہ یکساں ہوچکی ہیں۔ استحصال مرد کا بھی ہوتا ہے۔ اْس کا کردار بھی بے داغ ہوسکتا ہے۔ خوامخواہ کی جھوٹی جذباتیت میں اس بات کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔ انصاف کا معیار عورت و مرد کی جنس سے بالاتر ہوتا ہے۔