سانحہ ساہیوال کے ملزم شک پر بری

Oct 26, 2019

انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال کیس کا فیصلہ سنا دیا ۔ مقدمہ میں گرفتار تمام ملزموں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے مقتول ذیشان کے بھائی احتشام سمیت مجموعی طور پر 53 گواہوں کے بیان قلمبند کئے۔ مقتول خلیل کے بچے عمیر، منیبہ اور بھائی جلیل سمیت دیگر نے بھی اپنا بیان قلمبند کروایا۔ سانحہ ساہیوال کے ملزمان صفدر حسین، احسن خان، رمضان ، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے۔ مقدمے کے مدعی کی جانب سے شناخت پریڈ کے دوران ملزموں کو شناخت نہ کیا جا سکا۔ ایک سانحہ جس کی وڈیوز موجود ہیں۔ ملزمان کے اعترافی بیانات میڈیا میں آ چکے ہیں۔ ایک وقوعہ ہوا دو خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔ پچاس گواہ پیش مگر فیصلے میں ملزموں کو بری کر دیا گیا اور سب سے حیران کن مدعی مقدمہ کا بیان ہے۔ مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ انصاف کے عین تقاضوں کے مطابق ہے۔ ہم مطمئن ہیں، تسلی کر لی ہے واقعہ ایک حادثہ تھا۔ سانحہ ساہیوال میں کسی کی کوئی بدنیتی شامل نہیں۔ اپیل ہے قیاس آرائیوں سے پرہیز کیا جائے تاکہ فیملی کی دلآزاری نہ ہو۔ عدالت کے سامنے جو شواہد رکھے گئے اس نے انہی کے مطابق فیصلہ کرنا تھا جو سامنے آ چکا ہے، گواہوں حتیٰ کہ مدعی کے خیالات میں ’’انقلابی‘‘ تبدیلی کیسے آئی۔ یہ ایک سو الیہ نشان ہے۔
دوسری طرف سول کورٹ سرگودھا نے گورنمنٹ سکول ٹیچر کی ٹانگیں توڑنے کے مشہور مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے اسلم مڈھیانہ کو فریقین کے مابین راضی نامہ ہونے پر بری کر دیا۔ ایسے کیسز میں اسی طرح اثر و رسوخ استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ ایک سینیٹر سرعام سپریم کورٹ کے ججوں کو دھمکیاں دیتا ہے کہ تمہاری اولاد کی زندگی عذاب بنا د یں، کسی صورت میں چھوڑیں گے ۔ لوئر کورٹس پر کتنا دبائو ہوتا ہو گا۔ سانحہ ساہیوال کیس میں بادی النظر میں گواہوں اور مدعی پر دبائو ڈالا گیا ہے۔ لوگوں میں بالعموم جرأت اور ایمان کی کمی دیکھی ہے اور پھر لالچ کے ساتھ خوفزدہ کرنے کے حربے میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں اکثر حلقوں کی نظر میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے حکومت کی طرف سے بھی اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی پناب حکومت کو اس کیس کے فیصلہ کیخلاف اپیل دائر کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ مدعی کی طرف سے تو یہ باب بند ہو گیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اس کیس کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر سکتی ہے۔

مزیدخبریں