مراکش کے شہرفیض کا دورہ مکمل کرکے ہم میدلت(Midelt) پہنچے۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کوہِ اطلس کے دامن میں واقع ہے۔اس کی آبادی صرف ستر ہزار کے لگ بھگ ہے۔دراصل یہ اردگرد واقع زرعی علاقوں کی پیداوار کی تجارتی منڈی ہے۔یہاں پھلوں،سبزیوں،دالوں اور مختلف اقسام کے اناجوں کے سودے ہوتے ہیں۔مقامی آبادی کے چھوٹے چھوٹے لیکن خوبصورت اور صاف ستھرے گھروں کے علاوہ یہاں باہر سے آنے والوںکے لیے ایک سہ ستارہ ہاسٹل(3-star hostel)ہے جو اپنی گنجائش کے مطابق بھرارہتا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک ندی بہہ رہی ہے جو پہاڑ سے چشمے کی صورت میں نکلتی ہے۔اس ندی پر کئی چھوٹے چھوٹے پل تعمیر کیے گئے ہیں تاکہ شہریوں کوآمدورفت کی سہولت حاصل ہو۔جب ہم سرسری دورے کے بعد یہ قصبہ چھوڑ رہے تھے تو اس وقت شام کے چار بجے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کے اندر ہمیں ایک صحرائی سفر پر روانہ ہونا تھا جو ہماری زندگی کا ایک ہولناک اورناقابلِ فراموش تجربہ بننے والا تھا۔میدلت(Midelt)کی حدود سے نکلتے ہی اُومولود(گائڈ)نے ہمیں بتایا کہ وہ اب ہمیں ایک ’’لمبے سفر‘‘پر لے جارہا ہے۔ہم نے اس سے کہا ’’کیوںہمیںلمبے سفر سے ڈرا رہے ہو،دیکھتے نہیں ہمارا پوتا بھی ساتھ ہے۔یہ اُس کی عمر ہے،’لمبے سفر‘ کی؟‘‘اُومولود یہ سُن کر بوکھلاگیا اور معذرتیںکرنے لگا۔ہم نے خاصی دیر اُسے زِچ کیے رکھا جس کے بعد اس نے مصالحانہ لہجے میں مطلع کیا’’سر،میں آپ کو صحرائے اعظم یعنی صحارا میں لے جارہا ہوں جہاں وی آئی پی خیمے میں ایک رات آپ کا قیام رہے گا۔وہیں آپ خصوصی عشائیے میں شرکت کریں گے اور دنیا کے دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے سیاحوں کے ساتھ سالِ نوکا استقبال کریں گے۔‘‘ایک لمحے کے لیے ہمیں یہ سب کچھ سن کرجھرجھری آگئی جب کہ ہمارے پوتے( رمیز قریشی) کا چہرہ جوش و مسّرت سے کھِل اٹھا۔صحرا کے سفر کے
لیے یا تو صحرا کا جہاز(اُونٹ )درکار ہوتا ہے یا پھر چاروں پہیوں پر دوڑنے والی مضبوط جیپ جس کا ڈرائیور بھی عام نہیں بلکہ خاص الخاص ہوتا ہے۔اُومولود نے بتایا کہ جیپ اور ڈرائیور ہمیں مرزوکہ(Merzouga) سے ملیں گے جہاں ہمیں شام پانچ بجے تک پہنچنا ہے۔یہ صحرائی قصبہ الجزائر کی سرحد سے صرف8 1میل کے فاصلے پر واقع ہے۔اب ہم اپنے دورۂ مراکش کے اگلے(شاید اہم ترین)مرحلے کے لیے تیار تھے۔عبدالاحد (ڈرائیور) نہایت سرعت اور مہارت سے گاڑی چلاتا ہوا ہمیں مقررہ وقت پر مرزوکہ لے آیا۔یہ چھوٹا سا گائوں صحارا کے مراکشی حصے کے دہانے پر واقع ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس گائوں میں اپنے ملک کا سب سے بڑا زیر زمین پانی کا قدرتی ذخیرہ موجود ہے۔2006ئ میں یہاں زبردست سیلاب آیا جس نے سیکڑوں لوگوں کو بے گھر کردیا تھا اور بہت سوں کی جان لے لی تھی۔یہ گائوں بھی مراکش کے دیگر علاقوں کی طرح ہرا بھرا اور صاف ستھرا ہے۔چھوٹے چھوٹے مکانات کچے بھی تھے اور پکے بھی۔یہاں ایک نمکین پانی کی نہر ہے جو گرمی کے موسم میں خشک رہتی ہے۔ریگستان سے قربت کے باعث گائوں میں اُن صحرائی پرندوں کی بہتات ہے جو سردی کے موسم میں ہجرت کرکے یہاں آجاتے ہیں۔موسم بدلتے ہی وہ لوٹنے لگتے ہیں لیکن واپسی پر ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے ۔اگر ہمارے یہاںکوئی ایسا علاقہ ہوتا تو کوئی بھی پرندہ واپس نہ جاتا کہ ہم تو ایک بوٹی گوشت کے چِڑے اور بیٹر کوبھی سیخوں میں پرودیتے ہیں۔شام کا وقت ہو،صحرائی قصبہ ہو اور موسم خنک ہوتو کون ایسابدذوق ہوگا جس کا ’’پینے‘‘کو جی نہیں چاہے۔ہم نے اُومولود سے کہا کہ بہت زور کی’’چِیاس‘‘لگی ہے۔رمیز نے فرمائش کی’’میرے لیے ہاٹ چاکلیٹ۔‘‘ہم لوگ ایک سڑک کے کنارے بنے ہوئے ریسٹورنٹ پر رُکے اور رمیز کے سوابقیہ تینوں نے مراکشی(پودینے والی)چائے کی چسکیاں لیں۔چائے/چاکلیٹ سے فارغ ہوکر ہم پانچ بجے کے لگ بھگ معیّنہ مقام پر پہنچ گئے جہاں ایک زبردست قسم کی جیپ اور اس سے زیادہ دبنگ ڈرائیور تیار کھڑے تھے۔ڈرائیور بہت لمبا تڑنگا،ہٹا کٹا اور سرخ و سفید جوان تھا۔اس نے اپنے سر پر عجیب طرح کاپگڑ باندھ رکھا تھا۔اس کے گال انگاروں کی طرح چمک رہے تھے۔گالوں کی کچھ لالی آنکھوں میں بھی اتر آئی تھی بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اس کی ’’آنکھوں میں خون اتر اہوا تھا۔‘‘چوڑے چکلے چہرے پرسُتواں ناک اورکشادہ پیشانی نے اس کی وجاہت میں اور اضافہ کردیا تھا۔اس نے اپنا نام جابر بتایا اورواقعی یہ نام اس پر جچتا تھا۔علامہ اقبال نے ایسے ہی’کھُردرے‘،کڑیل ،سادہ لوح مگر پاک باطن لوگوں کے لیے کہا تھا ؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
اپنے بارعب سراپے کے برعکس،جابرطبعاً خوش مزاج تھا۔ٹوٹی پھوٹی انگریزی بھی جانتا تھا اس لیے کہ اس کا پالا اکثریورپی سیاحوں سے پڑتا تھا جن کے لیے صحارا میں ایک رومان پرورسُرور ہے۔جابر نے ایک نامانوس لیکن دل کش مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے لیے جیپ کا دروازہ کھولا اور ہم آرام سے اس میں اپنے ہوائی تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔گاڑی چلتے ہی جابر نے ایک عربی نغمے کا کیسٹ لگادیا۔ہماری کچھ بھی سمجھ نہیں آیا سوائے ’’سُبحَین اﷲ‘‘کے۔ساڑھے پانچ بجے کے قریب ہم گائوں سے باہر نکل کر ہائی وے پر آگئے۔اب ہمارے سامنے اتھاہ لمبائی میں پھیلی ہوئی سڑک تھی۔اُلٹے ہاتھ پر ہرے بھرے کھیت تھے،سیدھے ہاتھ پر میدان اوراُس کے پیچھے ایک طویل پہاڑی سلسلہ۔جیپ طوفانی رفتار سے جارہی تھی کیونکہ ڈرائیور شام کی روشنی کو غنیمت جانتے ہوئے جلد ازجلد صحارا میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن اس حساب سے ہم کم سے کم دوگھنٹے لیٹ تھے اس لیے کہ اس وقت جھٹپٹاہورہا تھا۔ یہ اُومولود کی ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔اس کا ہمیں جو خمیازہ بھگتنا پڑا اس کا ذکر آگے آئے گا۔شام کی ڈھلتی روشنی میں ہم نے دشت ودمن کے جو نظارے دیکھے وہ مسحورکُن تھے۔پہلی عجیب بات یہ تھی کہ پہاڑ مختلف رنگوں کے تھے۔کبھی تسلسل سے کچھ کالے پہاڑ آتے،پھر سُرخ رنگ کے شروع ہوجاتے اور پھر مٹیالے رنگ کے۔ایک پہاڑ دیکھا جو شیر کی طرح پیر پھیلائے بیٹھا تھا۔بعض پہاڑوں میں بنے ہوئے غار بھی دُور سے صاف نظر آرہے تھے۔کچھ پہاڑی چشموں میں کشتی رانی ہورہی تھی۔یہ مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔الفاظ میں وہ کیفیات بیان نہیں کی جاسکتیں جو اُس وقت ہم پر طاری تھیں۔ رمیز نے چلتی گاڑی سے ایسے ایک دل کش منظرکو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا۔سفر جاری تھا کہ سڑک کے دونوں کناروں پر کھمبے روشن ہونے لگے۔وہ سب شمسی توانائی سے چل رہے تھے جن کے پینل بھی ساتھ ہی لگے ہوئے تھے۔راستے میں تھوڑی تھوڑی دُور پر کوئی مزدور خالی بوتل ہاتھ میں لیے کھڑا ہوتا اور اُسے ہلا کر پانی کی درخواست کرتا تھا۔ہم نے کسی موٹر سوار کو رُکتے نہیں دیکھا لیکن کوئی تو رُکتا بھی ہوگا جس کی امید پر یہ لوگ کھڑے ہوئے تھے۔وہاںکوئی آبادی نظر نہیں آرہی تھی۔ہم نے اُومولود سے پوچھا’’یہ لوگ اپنے گھروں کو کیسے جاتے ہوں گے؟‘‘اس نے بتایا کہ ٹھیکے دار کی گاڑیاں اوقاتِ کار کے بعد سب کو ان میں بیٹھا کر قریب کے ایک گائوں میں پہنچا دیتی ہیںجہاں سے انھیں اجرت پر لیا گیا تھا۔دوردراز علاقوں میں بسنے والے عوام کو روزگار کی فراہمی کا یہ نظام ہمیں اچھا لگا۔ہائی وے پر بہت کم گاڑیاں اُس سمت میں چل رہی تھیں جس میں ہم جارہے تھے جبکہ مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کی تعداد کئی گُنا زیادہ تھی ۔اس سے صاف ظاہر تھا کہ ڈوبتی شام میں صحرا کی طرف جانے والے ہم جیسے بے وقوف کم تھے اور وہاں سے لوٹنے والے زیادہ تھے۔راستہ طویل ہوگیا تو ہم نے کسی قدر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے اُومولود سے پوچھا’’آخر ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘اس کا مختصر جواب تھا"To the desert."رات کا آغاز ہوا ہی تھا کہ گاڑی کو ایک زوردار جھٹکالگا۔یوں معلوم ہواکہ جیپ اُوپر سے کسی گڑھے میں جاگری ہے۔ہماری اور رمیز کی خوف سے چیخیں نکل گئیں لیکن اُومولود اور جابر نے قہقہے بلند کیے۔ ہمیں مصحفیؔ یاد آگئے ؎
رونے پہ مرے جوتم ہنسو ہو
یہ کون سی بات ہے ہنسی کی؟
وہ دونوں جب ہنسی سے فارغ ہوئے تو اُومولود نے بتایا’’ اب ہم صحارا میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ پہلا جھٹکا تھا۔ابھی تو اور لاتعداد لگیں گے۔‘‘ہم دردِ کمر کے پرانے مریض ہیں۔ہم نے اُومولود سے شکوہ کیا ’’ہماری عمر دیکھو اور صحت دیکھو۔ ہمیں ایسی جگہ کیوں لائے؟‘‘اُومولود کا سیدھا سادا جواب تھا’’یہاں کا دورہ آپ کے سیاحت نامے(Itinerary)میں شامل ہے۔یہاں تو...‘‘ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ایک اور جھٹکا لگا۔ہمارے ذہن میں ریگستان کا یہ تصور تھا کہ جہاں ریت ہی ریت ہو۔وہاں جاکر معلوم ہواکہ ریگستان وہ جگہ ہے جہاں ہر طرف ریت کے ٹیلے ہوں۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ باہر بھی گھُپ اندھیرا اوراندر بھی۔جیپ اپنی روشنی پر چل رہی تھی۔صحرا میں چونکہ راستے نہیں ہوتے اس لیے یہ اندازے کا سفر تھا۔ہماری منزل ایک کیمپوں کی آماجگاہ(Tentage complex)تھی جوآغازِ صحرا سے دو گھنٹے کی مسافت پر کہیں واقع تھی۔ہمیں پہلا جھٹکا آٹھ بجے کے قریب لگا تھا۔اس لحاظ سے ہمیں دس بجے تک وہاں پہنچ جانا چاہیے تھا۔جیپ جب کسی ٹیلے پر چڑھتی تو جابر اسے پہلے گئیر میں ڈال کر اپنے جسم کو مختلف زاویوں سے اس طرح ہلاتا جیسے وہ خود بھی اُسے دھکا دے رہا ہو۔معلوم ہوا کہ صحرا میں ڈرائیونگ کی یہی تکنیک(Technique)ہے کہ گاڑی کے ساتھ ساتھ ڈرائیور بھی زور آزمائی کرتا رہے۔یہی وجہ ہے کہ عام ڈرائیور صحرا میں گھسنے کی جرات نہیں کرسکتا۔کبھی کبھار تو جھٹکا اتنا زور دار ہوتا کہ پوری جیپ دائیں یا بائیں جانب جھول جاتی اوریہ محسوس ہوتا کہ ابھی اُلٹ جائے گی۔ہم دونوں دادا پوتا ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے تھے۔دونوںنے سیٹ بیلٹ بھی باندھ رکھی تھی ورنہ اگلی سیٹوں کی پشت سے ٹھکرا کر اپنے جبڑے تڑوابیٹھتے۔ہماری جان سانسوں پر تھی اور وہ دونوں اطمینان سے باتوں میں مصروف تھے۔ہمیں ڈر تھا کہ اگر خدا نخواستہ کمر جواب دے گئی توسفر، وہیں صِفر ہوجائے گا۔ہم دونوںکبھی پنڈولم کی طرح دائیں بائیں ہلتے اور کبھی گھنٹی کے لٹکن(Clapper) کی طرح آگے پیچھے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم سے سیاحت نامے کو پوری طرح پڑھنے اور سمجھنے میں چُوک ہوئی تھی۔ہمیں وہاںنہیں جانا چاہیے تھا۔ایک طرف گاڑی صحرا کو’’اُدھیڑ‘‘رہی تھی(یا اس کے برعکس ہورہا تھا)جبکہ دوسری طرف ہم دونوں کو اپنی لمبی نشست پر ایک سیکنڈ چَین نہیںتھا۔سانسیں تھیںکہ اُکھڑی جاری تھیںلیکن پھراچانک ہم دونوں بلکہ ہم چاروں کو قرار آگیا۔سانسیں بھی بحال ہوگئیں۔ نشستیں سیدھی کرلیں اور سیٹ بلیٹس بھی کھول دی گئیں۔ایسا نہیں تھا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے بلکہ ہوا یوں تھا کہ گاڑی ایک ریت کے ٹیلے کے اُوپر پہنچ کردھڑام سے جو نیچے گری تو پھر اٹھ نہ سکی۔انجن بند ہوگیا۔ڈرائیور جابر اور اُومولود ہمیں بیٹھے رہنے کی ہدایت دے کر باہر نکلے۔جیپ پوری طرح ریت میں دھنس چکی تھی۔جابر نے واپس آکر گاڑی اسٹارٹ کی اور اسے پہلے گئیر میں ڈالا۔چاروں پہیے تیزی سے گھومے لیکن گاڑی ایک انچ نہیں سرکی۔اُن لوگوںنے پھاوڑوں کی مدد سے ریت ہٹانی شروع کی۔پندرہ منٹ بعدجابر نے پھر گاڑی اسٹارٹ کی مگر صرف پہیے گھومے۔پیٹرول بچانے کی خاطر جابر نے گاڑی کا ہیٹر بند کردیا تھا۔اب ہم تھے اور صحرا کی سردی،باہر ہر طرف اندھیرا۔اُن دونوں کویہ بھی علم نہ تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ہمیں خدشہ تھا کہ کہیں رمیز حوصلہ ہار کر گھبرا نہ جائے۔لہٰذا ہم نے اس کا دل بہلانے کی غرض سے اپنی زندگی کے عجیب وغریب واقعات چھیڑدیے۔وہ بھی بیچ بیچ میں ایک آدھا لطیفہ چھوڑدیتا اور ہم دونوں(مصنوعی طورپر) خوب ہنستے۔بعد میں اس نے بتایا کہ وہ ہمیں بہلا رہا تھا کہ کہیں دادا گھبرانہ جائیںحالانکہ یہی سوچ ہماری تھی کہ پوتا نہ گھبراجائے۔اب حال یہ تھا کہ باہر ویرانی،اندر پریشانی،وطن سے دوری،بے بسی اور مجبوری۔ہمیں اُن دونوں سے کوئی خطرہ نہ تھا لیکن اُس مصیبت سے نکلنے کی کوئی صورت بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ایک بات یقینی نظر آرہی تھی...کہ رات اُسی آفت کدے میں گزارنی ہے ع ہنس کر گزار یا اسے روکر گزاردے!رونا تو ہمیں بہرحال نہیں تھا لیکن اب ہنسی بھی ساتھ چھوڑ رہی تھی بلکہ اس کی جگہ طبیعت پر وحشت چھارہی تھی۔ایسے میں غالبؔ نے ذہن پر دستک دی ؎
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر،وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
صحارا میں بے سہارا
Oct 26, 2020