پاکستان میں اس وقت کپاس کی پیداوار گذشتہ سال کی نسبت بہت کم ہے کاٹن سیزن 2020-21کی اس صورتحال کے ذمہ دار وں کا تعین ہونا ضروری ہے اس وقت مارکیٹ زرائع 50لاکھ کاٹن بیلز کا اندازہ لگا رہے ہیں جبکہ گذشتہ سال لگ بھگ 86لاکھ بیلز کی پیداوار ہوئی تھی جبکہ پاکستان میں کاٹن کی کھپت ایک کروڑ 45لاکھ بیلز (165kg)ہے کرونا لاک ڈائون کی وجہ سے ملوں کے پاس 40لاکھ بیلز موجود تھیں جس کے بعد لگ بھگ 55لاکھ بیلز امپورٹ کرنا ہوں گی جس پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہو گا غیر یقینی موسمی حالات ،غیر معیاری سیڈز اور سفید مکھی کی زرعی دوائی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کی فصل تباہ ہو گئی ہے اب پاکستان میں زرعی ادویات بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں ہے تمام زرعی ادویات امپورٹ ہوکر آتی ہیں اور90فیصد چین سے امپورٹ ہوتیں ہیں اب چین میں تو سفید مکھی نہیں ہوتی اس لئے چین میں سفید مکھی کو ختم کرنے والی زرعی دوائی نہیں بنتی اندازہ ہے کہ دو ملین بیلز رواں سیزن میں سفید مکھی کھا گئی ہے اب کاٹن مارکیٹ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کیلئے خوشخبری ہے کہ حکومت نے کاٹن کی پیداوار کو بہتر بنانے کیلئے اپٹما رہنما میاں گوہر اعجاز کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے جس کے دیگر پانچ ممبران بھی ٹیکسٹائل مل مالکان ہیں اس ٹاسک فورس نے انڈیا کو چھوڑ کر دنیا کے تمام بڑے کاٹن پیدا کرنے والے ممالک کے ماہرین سے رابطہ کر لیا ہے اور نومبر میں دنیا کے دو درجن سے زائد کاٹن ایکسپرٹ پاکستان پہنچ رہے ہیں ۔
اب کاٹن مارکیٹ کا جائزہ لیتے ہیں گذشتہ ہفتہ آنے والی ویکلی امریکن سیل رپورٹ جو 130فیصد زیادہ ہے نے دنیا کی کاٹن مارکیٹ پر اچھے اثرات مرتب کئے ہیں لیکن اس130پلس مارکیٹ کو پلس کرنے کا تمام کردار پاکستان کا ہے جس نے گذشتہ ہفتہ امریکن مارکیٹ سے سب سے زیادہ ایک لاکھ بیلز (220)کلو والی کاٹن خریدی جبکہ گذشتہ ہفتہ پاکستان کی ملوں نے امریکہ کے علاوہ برازیل ،یوگنڈا،سوڈان اور افغانستان سے مجموعی طور پر ہاف ملین کاٹن بیلز خریدی مقامی مارکیٹ ہفتہ کے آخر میں قدرے دبائو میں نظر آئی اعلیٰ کوالٹی کے علاقے ضلع بہاولنگر کے تمام اسٹیشن پر جہاں 10500کی پوزیشن تھی وہاں 10300سے10200میں کام ہوا جبکہ پنجاب کے دیگر علاقوں میں 9700تک کام ہوا کراپ سائز کم ہونے کی وجہ سے جینگ پراسس بھی سست ہے اور ملک میں چلنے والی کاٹن فیکٹریوں سے صرف 40فیصد فیکٹری 24گھنٹے چل رہی ہے جبکہ گذشتہ سال ان دنوں میں 90فیصد کاٹن فیکٹریاں 24گھنٹے چل رہی تھیں اس وقت پاکستان میں پھٹی کی ہولڈنگ بہت زیادہ ہو رہی ہے کیونکہ کاشتکار کاٹن کو بہت زیادہ اوپر دیکھ رہے ہیں پھٹی مارکیٹ 4500سے5500روپے ہے جبکہ
کاشتکار اسے 6000روپے من سمجھ کر سٹاک کر رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ مارکیٹ کتنا اوپر جاتی ہے کاٹن نے 10500کو چھوا ہے بنولہ 2400کو چھو گیا ہے مجموعی طور پر مارکیٹ میں استحکام ہے کرونا کی دوسری کی لہر یورپ اور امریکہ میں ابھرنا شروع ہو گئی ہے جسے سب تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں کرونا کا امریکہ اور یورپ میں پھیلائو کرسمس کو متاثر کر سکتاہے جس سے 140ارب ڈالرز کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی خریدوفروخت متاثر ہو گی او ر اس کا اثر دنیا کی تمام کاٹن مارکیٹس پر بھی ہو گا اس سے کچھ مقامی کاٹن کے سٹیک ہولڈرز پریشان ہیں دنیا میں کرونا کی لہر کاٹن مارکیٹ میں مندے کا سبب بن سکتی ہے ۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں گندم کی صورتحا ل پر گندم کی بیجائی سندھ میں شروع ہو گئی ہے اور دو لاکھ ایکڑ پر گندم لگ چکی ہے پنجاب میں بھی اگیتی گندم کی بیجائی جاری ہے جبکہ حکومت تاحال گندم کی سپورٹ پرائز کا علان کرنے میں ناکام ہو چکی ہے حکومت میں شامل وہ سیاست دان جو دیہی پس منظر رکھتے ہیں وہ گندم کی سپورٹ پرائز 2000روپے من سے پلس چاہتے ہیں جبکہ جو شہری علاقوں سے ہیں وہ 1700روپے من پر اصرار کر رہے ہیں حکومت نے صوبوں سے مشاورت مانگی ہے جس میں سندھ حکومت نے انکار کر دیاہے سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس گندم خریداری کیلئے پیسے نہیں ہیں گندم کی سپورٹ پرائز پر سیاست کا ہونا ایک المیہ ہی ہے کرونا کے بعد دنیا میں اجناس کو سٹاک کرنے کا رحجان بڑھا ہے جس سے دنیا میں گندم کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو گیاہے حال ہی میں تین لاکھ ٹن گندم پاکستان نے روس سے خریدی ہے جو پاکستان پہنچ کر 2500روپے پڑ رہی ہے اب کیا مستقبل میں بھی دنیا میں گندم کے یہ ریٹس رہیں گے یہ حتمی نہیں ہے کیونکہ جیسا کہا جا رہاہے کہ دسمبر تک کوڈ19کی ویکسین مارکیٹ میں آجائے گی جس کے بعد اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ کی ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں اس لئے حکومت ایک تو گندم کی جلد امدادی قیمت کا اعلان کرے اور ایسا نرخ سامنے رکھے جس میں سب کو فائدہ ہو اوپن مارکیٹ میں اس وقت گندم 2000سے2200روپے من ہے اور پرائیوٹ سیکٹر کے پاس اچھا سٹاک موجود ہے لیکن اس سٹاک کا حجم سامنے نہیں آ رہا اب جبکہ یوکرائن اور روس سے گندم آ رہی ہے جس سے ملکی ضروریات تو پوری ہو جائے گی لیکن کیا آٹا اور گندم سے بنی ہوئی دیگر اشیاء کی قیمتیں کنٹرول میں رہیں گی یہ کہنا مشکل ہے دسمبر ،جنوری اور فروری میں آٹا کی قیمتوں کا مسّلہ سامنے آسکتا ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن گندم ،چینی ،کاٹن ،دالیں ،سویابین سمیت 27زرعی اشیاء امپورٹ ہو رہی ہیں جس پر بہت زیادہ زرمبادلہ خرچ ہو رہاہے اس پر غور کیا جانا ضروری ہے ۔