تجزیہ: محمد اکرم چودھری
مشکل حالات میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب نہایت اہم ہے لیکن ہمیں اس دورے سے بہت زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہئیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات مثالی نہیں ہیں۔ گوکہ شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کا دورہ کر کے گئے، وزیراعظم عمران خان بھی کئی مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی تک برف پگھل نہیں سکی۔ دونوں ممالک دور دور سے ایک دوسرے کو دیکھ تو رہے ہیں لیکن آگے نہیں بڑھ رہے۔ شاید تعلقات بہتر بھی کرنا چاہتے ہوں لیکن ابھی تک کوئی ایسا راستہ نہیں نکل سکا جس سے یہ بات کہی جا سکے کہ پاکستان اور سعودی عرب قریب آ رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات ماضی جیسے نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ، برادرانہ اور مذہبی تعلقات رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے حالات بدل چکے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کی باتیں سننے میں آئیں۔ اس دوران یہ بھی سنا گیا کہ سعودی عرب پاکستان میں بھارت جیسی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سعودی عرب بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اسی طرز پر پاکستان میں بھی کام کرنے کی باتیں سنی گئیں۔ سعودی عرب کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو مالی امداد کے بجائے سرمایہ کاری کی شکل میں مدد کی جائے گی لیکن کئی ماہ گذرنے کے باوجود اس حوالے سے کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہو سکی۔ ماضی قریب کے واقعات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس دورے سے بھی زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہئیں۔ البتہ وزرات خارجہ کو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب میں خطاب کرتے ہوئے سرمایہ کاروں کو دعوت دی ہے‘ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت تو دے رہے لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہوں گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا بے کہ نتیجہ کیا نکلا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کو بھی سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں لیکن عوام نتیجے کے منتظر ہیں۔