پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں ٹریفک جام اور بدنظمی کی وجہ سے گاڑیوں کے ہارنوں سے نکلنے والی پوں ، پاہ، ٹیں ، ٹاہ کی آوازیں سن سن کر شہری ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں ،سڑکوں پر ٹریفک کی بدنظمی کی وجہ سے منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوکر رہ گیا ہے، لاہور سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں شاید کوئی دن ایسا ہو جب وہاں پر بسنے والے شہریوں کو ٹریفک جام کے عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑا ہو ،آج بھی وی وی آئی پی موومنٹ کے نام پر بلا سوچے سمجھے اہم ترین شاہراہوں پر ٹریفک روک دی جاتی ہیں جووی آئی پی قافلے کے گزر جانے کے بعد شہریوں کیلئے ایک عذاب کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ر ہی سہی کسر مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں ، سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی یونینر کی جانب سے کئے جانیوالے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں نے نکال رکھی ہیں ،جس کاجب دل چاہتا ہے وہ 100 سے200 کے قریب لوگوں کو اکھٹا کرکے اپنے حقوق کے نام پر شہر کی کسی بھی شاہراہ پر احتجاج کرتے ہوئے وہاں پر ٹریفک نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیتا ہیں، دھرنوں اور ریلیوں کی وجہ سے ہونیوالی ٹریفک جام نے لوگوں کی زندگی عذاب بنا دیا ہے۔ احتجاج اور دھرنوں کے بعد سڑکوں پر ٹریفک کے جام رہنے کاایک سبب تجاوزات اور رانگ پارکنگ بھی ہیں،شہر کی مین سڑکوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ داتا دربار سے شاہ عالم چوک تک سرکلر روڈ کی چوڑائی تقریبا 40فٹ کے قریب ہے جس میں20 فٹ سے زیادہ کی سڑک پر تجاوزات، 10فٹ پر رانگ پارکنگ مافیا نے قبضہ جما رکھا ہے جبکہ بقیہ10 فٹ کے قریب بچنے والی سڑک ٹریفک کا بوجھ اٹھانے کیلئے انتہائی ناکافی ہیں ،اسی طرح سرکلر روڈ سے رنگ محل اور میو ہسپتال کی جانب سے آنیوالی سڑک پر بانس کی سیڑھیاںاور لوہے کی الماریاں بنانے والے قابض ہیں، سرکلر روڈ پر ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹ کے بڑے اسباب اردو بازار چوک، نیا باز ار چوک،بیرون لوہاری گیٹ،بیرون انارکلی بازار ، مچھلی منڈی اور بھاٹی چوک میں واقع رانگ پارکنگ۔غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز اور تجاوزات کے اڈے ہیں،کربلا گامے شاہ سے داتا دربا، پیر مکی اور مینار پاکستان جانیوالی سڑک اور شاہدرہ کی ونڈالہ روڈ اور بیگم کوٹ چوک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہیں ،اسی طرح برانڈرتھ روڈ ،منٹگمری روڈ ، لاہور ہوٹل چوک، کوئنز روڈ، دہلی گیٹ، لنڈا بازار ، انارکلی بازار،اچھرہ بازار ،لاری اڈا آٹو مارکیٹ ، مصری شاہ ،مغل پورہ لنک روڈ پر تجاوزات اور رانگ پارکنگ کی وجہ سے گاڑی اور موٹر سائیکل تو دور کی بات ٹھہری وہاں سے تو پیدل گزرنا بھی انتہائی دشوار ہیں۔یہ صرف چند ایک سڑکوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر اس کی پوری تفصیل کی طرف جائے تو شاید شہر لاہور کی کوئی سڑک ایسی ہو جس پر تجاوزات مافیا نے اپنا قبضہ نہ جمایا ہو، میو ہسپتال کی ایمر جنسی والی سڑک پر بھی پرانے کپڑے بیچنے والے قابض نظر آتے ہیں جبکہ یہ مافیا اس قدر طاقتور ہے انہوں نے ہسپتال کی دیوار پر بھی اپنا قبضہ جماتے ہوئے وہاں پر پرانے کپڑے لٹکا رکھے ہیں، اس تجاوزات مافیا کے طاقتور ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں سابق سی ٹی او لاہور طیب حفیظ چیمہ نے عوامی شکایات پر کارروائی کرتے ہوئے میوہسپتال کے چاروں اطراف سے تجاوزات کا مکمل طور پر صفایا کروادیا تھا ، ٹریفک پولیس کی اس کارروائی کے بعد اس روڈ پر ٹریفک جام نہیں ہوئی تھی مگر صرف ایک ہفتے کے بعد ہی یہ تجاوزات مافیا سیاسی آشیر باد لیکر پورے دھڑلے کے ساتھ دوبارہ میو ہسپتال اور اس سے ملحقہ تمام سڑکوں پر قابض ہوگیا تھا سابق وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے داتا دربارکی توسیع کے دوران وہاں پر موجود ریڑھی والوں کو ہٹا کر ان کیلئے بھاٹی چوک اور داتا دربار کے سامنے میں روڈ پر دوبڑی مارکیٹیں بناکر دی تھی مگر چندماہ بعد ہی ریڑھی مافیا نے ان دکانوں کو بیچا اور دوبارہ ریڑھیاں لیکر سڑکوں پر آگئے تھے ، بارہ دروازوں پر مشتمل اندرون لاہور کی تاریخی ثقافت کو بحال کرنے کیلئے والڈ سٹی اتھارٹی نے بھی متعدد بار تجاوزات کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ،یہی وجہ ہے کہ تجاوزات اور رانگ پارکنگ کی عفریت نے سیاسی آشیر بادکے ساتھ بیوروکریسی کے کرپٹ فسران کی مدد سے پورے لاہور میں اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل شہر میں ٹریفک نظام کو روانی سے چلانے کیلئے ترک ماہرین کی ایک ٹیم کوبھی مشاورت کیلئے بلایا گیا تھا جنہوں نے لاہور ٹریفک پولیس اور اس وقت کی ضلعی انتظامیہ کے افسران کے ساتھ ملکر شہر کی54 چھوٹی اور بڑی سڑکوں کا سروے کیا تھا اور 80 فٹ سے لیکر14فٹ تک کی سڑکوں کی پیمائش کو دیکھتے ہوئے دنگ رہ گئے تھے،ان کا کہنا تھا کہ اتنی چوڑی سڑکیں تو ترکی میں کیا پورے یورپ میں کہیں نہیں ،انہوں نے بھی سڑکوں پر ٹریفک جام رہنے کا سبب تجاوزات اور رانگ پارکنگ کو قرار دیا تھا۔ ترک ماہرین کا مشورہ اپنی جگہ، مگر اس کیلئے تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز کی مد میں ہردن ، ہر ہفتے اور ہر ماہ آنیوالی کروڑوںروپے کی منتھلی کی قربانی کون دیگا۔