محلات کو دولت سے اتنا مت بھرو

کہتے ہیں شطرنج کا وزیر اور انسان کا ضمیر دونوں مر جائیں تو کھیل ختم ہو جاتا ہے۔ انسان رات دن تدبیریں،ترکیبیں اورپلاننگ کرتا رہتا ہے مگر وہ شخص خوش قسمت ہوتا ہے جو دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور اپنی پلاننگ میں آخرت کو دنیا سے زیادہ ترجیح دیتا ہے اور اللہ کریم اور محبوب خدا ﷺ کی محبت اور عشق کی روشنی اور خلق خدا کی خدمت کی بدولت اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے ا ور دنیا سے کامیاب لوٹتا ہے دراصل کامیابی اسی کا نام ہے۔ 
حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ اللہ سے ضرورت مانگو جو ہر فقیر کی پوری ہوتی ہے خواہش نہ کرو جو کبھی بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی ۔ میں اس کا چشم دید گواہ ہوں بالآخر ذلالت ہی مقدر بن جاتی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کی چاپلوسیوں میں میرے بال سفید ہو گئے تھے مگر میں انھیں راضی نہیں کر سکا۔میں نے اپنی سابقہ جماعت کیلئے رات دن کام کیا۔ کوشش کی کہ ایمانداری کا دامن نہ چھوڑوں ۔ اسی سفر میں پنجاب کا وزیر بھی بنا اور 2008ء سے 2013ء تک بطور وزیر محنت کر کے جب 2013 ء کا الیکشن آیا تو مجھے نواز شریف صاحب کا الیکشن لڑنے کیلئے سرگودھا بھیج دیا اور میں وہاں سے نواز شریف کیلئے لاہور سے زیادہ ووٹ لیکر آیا۔میری رائیونڈ والی سیٹ جہاں سے میں الیکشن لڑتا تھاوہاں شہباز شریف آ گئے ۔ شہباز شریف نے میری خدمت کا صلہ یہ دیا کہ ایک دوسری جماعت کے آدمی کیلئے پارٹی ضمنی الیکشن میں وہ سیٹ چھوڑ دی اور میری ساری پارٹی خدمات کو پس پشت ڈال دیا گیا اور NA-68سرگودھا جہاں سے میں نواز شریف کا الیکشن جیت کر آیا تھا جب نواز شریف کی تقریب حلف برداری ہوئی تو مجھے اس قابل بھی نہ سمجھا کہ مجھے تقریب میں بھی بلایا جائے۔ کچھ ہفتے بعد میں نواز شریف کے قریبی ساتھی پرویز رشید صاحب کے پاس پنجاب ہائوس اسلام آباد گیا کہ مجھے نواز شریف صاحب کیلئے الیکشن کی ذمہ داری دی تھی جو میں نے بخوبی نبھائی ہے اب میرے لیے کیا حکم ہے۔ پرویز رشید صاحب نے کمال کا جواب دیا کہـ"چوہدری صاحب اپنے گھر دے کم کرو جا کے ہو رکجھ وی نئیں "میرے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی میں نے دوبارہ پوچھا آپ کا کیا مطلب ہے پھر کہنے لگے آپ کی باڈی لینگوئج بدل گئی ہے ۔ میں نے کہا بالکل یہ کیا طریقہ ہے۔ دوبارہ یہی جواب تھا میں خاموشی سے واپس آگیا۔یہی وہ لمحات تھے جنہوں نے میری زندگی بدل دی میں ایک ڈرائونے خواب سے باہر آگیا۔ یہ وقت تھا جب میں بالکل ٹوٹ گیا تھا پھر وہی رب ہے جب سارے دروازے بند ہو جائیں تو اس کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ان دنوں میں مجھے ہارٹ اٹیک ہوااللہ کریم نے مجھے شفاء عطا کی مگر جن کی محبت میں میں نے سب کچھ بھلایا ہوا تھا انھوں نے میرا حال تک نہیں پوچھا۔ انتہائی دکھی تھا اور ان دنوں میں میں نے ایک گانا بہت سنا:
جیہڑے توڑدے نے دل بر باد ہون گے
اج کسے نو روایا کل آپ رون گے 
وقت گزر گیا ہے زندگی گزر چکی ہے پتہ نہیں کس وقت بلاوا آجائے۔ جانے سے پہلے سوہنے رب کو راضی کر لینا چاہیے۔ مگر یہ میری زندگی کے بہترین لمحات ہیں ۔ یہ چند لائنیں لکھ کر شکوہ نہیں کیا بلکہ اپنے سیاسی ورکرز کیلئے چھوٹی سی روشنی دکھائی ہے ۔
 میں نے زندگی میں بہت سے سیاسی لوگوں کو دیکھا جن کے جانے کے بعد بھی وہ زندہ ہیں۔ کچھ کی تصویریں لوگ ٹرکوں کے پیچھے بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد ۔ ان میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے پاکستان کو آئین بھی دیا تھا ۔ عالمی اسلامی کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ پاکستان کو ایٹمی پاکستان بنانا ان کا سب سے بڑا جرم بن گیا۔ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں شاید ان سے بھی ہوئی ہوں مگر ان کے کام سب پر بھاری تھے۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ وہی کیا جو ہماری ہسٹری ہے ہم نے محسن اسلام اور محسن پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کو "تارا مسیح " سے پھانسی دلا دی یہی پاکستان کی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ میں نے بطور وزیر جیل خانہ جات ہندوستان کے جاسوسوں سے ان کے اہل خانہ کو گھنٹوں ملاقاتیں کرتے دیکھا ہے مگر شہید بھٹو کی بیٹی کے الفاظ جو تاریخ کا حصہ بن گئے جب سلاخوں کے ایک طرف بیٹی اور دوسری طرف باپ تھا آخری ملاقات تھی۔ بیٹی کہہ رہی تھی"Please  open the door I wan to touch my father" مگر ان کا جرم اتنا بڑا تھا کہ بیٹی باپ کے گلے نہیں لگ سکتی تھی۔ ہر گزرنے والا لمحہ تاریخ بنتا جا رہا ہے۔ ہم نے بھی جانا ہے کسی کو یقین نہیں تو لمبی زبانوں والوں کی قبروں پر جا کر خاموشی دیکھ لو۔میرا کسی سیاسی مافیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر بحیثیت سیاسی کارکن میں قوم کے محسنوں کو یاد رکھتا ہوں۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں ۔
صاحب اختیار و اقتدار سے درخواست ہے کہ : "اپنے محلات کو دولت سے اتنا نہ بھرو کہ عزت کے رکھنے کی جگہ نہ رہے"

ای پیپر دی نیشن