ئی بھی فن ایسا نہیں ہے جو ایک حکومت بہت جلد دوسری حکومت سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالنے کے علاوہ سیکھے.ایڈم سمتھ، ویلتھ آف نیشنز۔ آرتھرلفر ) (Arthur Laffer کو اقتصادیات کی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ امریکی صدر ریگن کی حکومت میں معاشی مشیر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دینے کا اعزاز رہا۔ انہے اقتصادیات کی دنیا میں پزیرائی ملنے کی ایک ابڑی وجہ انکا Laffer Curve کو جدید تقاضوں کے مطابق تعارف کرانا تھا۔ جسکی بنیاد پر امریکہ میں ٹیکس کی خاصی اصلاحات ہوئیں۔ عملی اقدامات کے علاوہ علم اور تحقیق میں بھی حاصہ مواد چھپا۔ اگر آسان لفطوں میں Laffer Curve کو سمجھایا جا ئے تو یہ ایک تھیوری ہے جو کہ ٹیکس کی شرحوں اور حکومتوں کی طرف سے جمع کی جانے والی ٹیکس آمدنی کی مقدار کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک حاص مقدار تک ٹیکس کی شرح بڑھانے سے حکومتی ٹیکس آمدنی بڑھتی ہے، جبکہ ایک حاص مقدار کے بعد ٹیکسوں کی شرح بڑھانے سے کاروباری سرگرمیاں بر ی طرح سے متاثر ہوتی ہیں جسکی وجہ سے حکومتی ٹیکس آمدنی بھی گھٹتی جا تی ہے۔ ہر حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس کی شرح کی مقدار ایک optimum tax rate پر رکھے جس سے کاروباری سرگرمیاں بھی متاژر نہ ہوں اور حکومتی ٹیکس آمدنی بھی ۔ اگر چہ دنیا کے بہترین جریدوں میں Laffer Curveپر کافی کام ہو چکا ہے اور آرتھرلفر کو کئی اعزازات سے بھی نوازہ گیا ہے، لیکن وہ خد اس بات کا اعطراف کرتے ہیں کہ وہ حقیقت میں Laffer Curveکے بانی نہیں۔ پھر اسکے حقیقی بانی کون تھے؟ تاریخ شاہد ہے کہ اسکے اصل موجد چودوہیں صدی کے تیونس میں پیدا ہونے والے مفکر ابن خلدون تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب مقدمہ میں اس وقت Laffer Curveکے بنیادی اصولوں کا ذکر کیا ہے ، کہ کس طرح ٹیکس کی شرح حکومت کی ٹیکس آمدنی کو متاژر کرتی ہے۔ انہوں نے اقتصادی ترقی کے نظریے کے علاوہ مختلف شعبوں جیسا کہ تاریخ نگاری ، سماجیات اور سیاسیات میں بھی کافی لکھا ہے۔ ابن خلدون کے نطریات پر ستروہیں صدی کے محقق اور تاریخ نگاروں نے سلطنت عشمانیہ کے عروج اور زال پر بھی تحقیق کا کام کیا۔ ابن خلدون کا نام مغربی دنیا میں سترہویں صدی کے اواخر میں متعارف ہوا۔ تب سے ابن خلدون پر آچھی خاصی تحقیق کی گئی۔ برطانوی تاریخ نگار آڑنلڈ ٹائن بی (Arnold J. Toynbee) نے ابن خلدون کی کتاب مقدمہ کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے سب سے بڑا کام کرار دیا ہے۔ 1981 میں امریکی صدر رونلڈ ریگن (Ronald Regan) نے اپنی معاشی پالیسیوں ، ریگنو مکس (Reganomics) کے اثرات میں ابن خلدون کا خاص حوالہ دیا ہے۔
موجودہ دور میں ابن خلدون کی Laffer curve کو ٹیکس اصلاحات میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ حاصکر سپلائی سائیڈ اکنامکس (supply side economics) میں Laffer Curve کافی وزن رکھتی ہے۔ اگر پاکستان کی حالیہ معاشی کار گرگی پر نظر دورائیں تو تصویر کچھ آچھی نطر نہیں آئیگی۔ بلاشبہ ٹیکس اصلاحات کی بات کئی عشروں سے جاری ہے۔ حاصکر انہی چند سالوں میں تو حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے میں کئی اقدامت کررہی ہے۔ حکومت نے ایف بی آر کے ذریے ٹیکس نیٹ ورک کو نہ صرف وسیع کیا ہے، بلکہ کئی اشیاء پر ٹیکس کی شرح بھی بڑ ھائی ہے۔ بیرونی قرض دہندگان جیسا کہ آئی ایم ایف (IMF) کے دبائو کی بناء پر حکومت کو مزید ٹیکس نافز کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ حکومتی موقف اپنی جگہ، لیکن ابن خلدون کی دریافت جسکو جدید دور میں Laffer curve کہا جاتا ہے، اگر اسکو بروے کا ر لاتے ہوئے ایک معروضی نگاہ سے دیکھا جاے، تو یہ موجودہ ٹیکس اصلاحات میں خاصہ موژر ژابت ہوسکتی ہے۔ خاص کر optimum tax کو ڈھونڈنے میں اور اسکے مطابق ٹیکسوں کی شرح کو نافز کرنا، آچھا نتیجہ لایا جا سکتا ہے۔ آج کی مسلم دنیا اپنی تاریخ پر ہی نظر دہرائے تو اسکو سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا۔ قرضوں میں جھگڑی مسلم دنیا یہ نہیں جانتی کہ ابن خلدون جیسے مشعل بردار ہی تھے جن کی روشنی سے مغربی دنیا نے اپنی تاریکی کو دور کیا۔ ابن خلدون پر خاصہ لٹریچر مغربی دنیا نے نہ صرف جمع کیا ہے، ابلکہ اسے دور جدیر کے تقاضوں میں بدل کر، اپنی معاشی اور سماجی زندگیوں کو بھی بہتر بنایا ہے۔ ہمیں اپنی اجتماعی دانش کو استعمال میں لاتے ہوئے ابن خلدون کے طرز استدلال کو اپنا کر اپنے ملکی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ مسلم دنیا کی قیادت ابن خلدون کی لائے فکر اپنا کر اپنے سماجی اور معاشی مسائل کو حل کر پائیگی، اگر وہ کرنا چاہے۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی