’’لوریاں اور پین کلر‘‘

سیاست  کے رنگ اورڈھنگ میں جاری ہے ،چونکہ اس کا کوئی اصول طے نہیں اس لئے جتنے منہ اتنی باتیں ہیں ،کوئی کہتا ہے کہ بڑی پنجہ آزمائی ہونے والی ہے، کوئی اسے محض پھنکار سمجھ کر نظر انداز کرنے کا مشورہ دے رہا ہے اور کوئی آنے اور جانے کی باتیں کر رہا  ہے تو آدمی یہ سن کر پریشان ہو گا کہ اتنا ہی دم ہے کہ ایک ضابطہ کار پر  سوچ کا فرق چل چلاؤ کا باعث بن جائے ،دل نہیں مانتا کہ ایسا ہو سکتا ہے ، اصل میںیہ ساری وقت گزاری اور کنفیوز کرنے کی کوشش ہے کیونکہ جہاں بھی شہد ہوتا ہے مکھیاں ضرور آ جاتیں ہیں ،اور بھن بھن سے پریشان کرتی ہیں ،کسی کے پاس کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ،بس جس کا جو من ہے اسی قسم کی باتوں کو پھیلارہا ہے ،خاک نشیں اعتراف کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی اطلاع نہیں ،بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ضابطے کا معاملہ ہے تو اس  کی کوئی اہمیت نہیں،مگر لگتا ہے کہ  یہ اس سے بڑھ کر کچھ ہے ،یہ جو کچھ بھی ہے اس کانتیجہ سامنے آنے ولا ہے ،یہ ایسا سبق ہو گا جو کئی بار  پہلے بھی پڑھا گیا ہے مگر اس کو یاد نہیں رکھا جاتا ،ہم کیو ں سیاست کے خار زار میں پاؤ ںذخمی کرتے رہیں ،سب ایک دوسرے سے خود ہی انصاف کر لیں گے ،جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اس دوران واشنگٹن میں قرضہ پروگرام کی مذاکرات کسی حتمی اعلا ن  کے بعد اختیام پزیر ہو گئے ،مشیر خزانہ  نے نیو یارک سے سعودی عرب کی پرواز پکڑ  لی اور سیکرٹری خزانہ بھی آچکے ہیں ،یہ بہت ہی متعلقہ سوال ہے کہ مذاکرات میں کیا ہوا؟جب بجلی گیس کے نرخ بھی بڑھا دئیے تھے ،ڈالر کو 170پر لے گئے  پھر کیا ہوا کہ آئی ایم ایف مطمین  نہیں ہو ا،  180ارب روپے کا ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کا بھی فائدہ نہیں ہو سکا ، اس بارے میں ابھی نہ تو وزارت خزانہ اور نہ آئی ایم ایف کا کوئی بیان سامنے  آیا ،بس وزارت خزانہ کا ایک اصرار ہے کہ کہ عالمی مالیاتی ادارے سے بات چیت ہو رہی ہیں ،چلیں نہ بتائیں مگر ایک عام شہری کی حیثیت سے جب کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارہ  کے بڑھتے رحجان کو دیکھا جائے تو آسانی سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ رواں مالی سال میں اس کے 10ارب ڈالر تک رہنے کا امکان ہے یہی وہ نکتہ ہے جس پر عالمی مالیاتی ادارہ پو چھ رہا ہے کہ اس کو کیسے پورا کیا جائے گا ،اب حکومت کی اپنی سوچ  ہے  ،وہ چاہتی ہے کہ اسے اپنے طور اور طریقے سے اس سے نمٹنے دیا جائے ،عالمی مالیاتی ادارے کو اس سے اتفاق نہیں ،اور وہ برملا کہتا ہے کہ ریونیو کو بڑھانے کے ٹھوس اقدامات اس کے پلان کے تحت کئے جائیں ،جن میں ٹیکس کو بڑھانا ،رعایات کو واپس لینا ،انرجی سیکٹر میں نقصانات کو کم کرنا اور لاگت کو پوراکرنے کے اقدامات شامل ہیں ،حکومت کو اصولی طور پر تو اس سے کوئی اختلاف نہیں  وہ دامے  وارے سخنے  پہلے یہ سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتی رہی ہے ،مگر اب ماحول ساتھ نہیں دے رہا ہے ،یہ ماحول جس میںاب بہت سے دوسرے عوامل شامل ہو چکے ہیں،خود اس کا اپنا پیدا کردہ ہے ،تین سال میں نہ صرف ماضی کو بھلادیا جاتا  اور نئے سفر  کا نصف ہی طے کر لیا ہوتا ، تو منطر بدل،چکا ہوتا مگر ہم تو ابھی تک ماضی  کی جگالی سے باہر نہیں جا سکے اور اسی میں ’لوریوں اور  پین کلر‘‘  کا وقت گزر گیا،اب دونوں دستیاب نہیں اور مشکلات منہ کھولے کھڑی ہیں،خاک نشیں آگاہ کر رہا ہے کہ ہول سیل کا افراط زر بڑھ رہا ہے ،جب یہ ریٹیل کی سطح پر آئے گا تو افراط زر بارہ سے تیرہ فی صد تک جا سکتا ہے ،یہ ناقابل برداشت سطح ہو سکتی ہے،اب آگے کا راستہ کیا ہو سکتا ہے ،اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلہ میں سیاسی موحول کو بہتر بنانے کے لئے ایشوز کو ایڈریس کیا جائے ،بے یقینی پہلے سے کنفیوذ ماحول کو مذید پراگندہ کرتی ہے،اس لئے اہم فیصلے لینے میں تاخیرنہ کی جائے،سیاست میں چونکہ پہلے اپنا مفاد دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے سادہ سی باتیں بھی گنجلک بن جاتی ہیں،اپنے مفاد سے اوپر ہو کر کچھ اقدمات کرنا ہوں گے ،سیاست میں گرما گرمی موجود ہے اس کے شدت میںکمی لانا چاہئے کیونکہ خرابی کا آغاز اسی سے ہوتا ہے ،اب کیا ہرج ہے کہ کچھ فیصلے ہو جائیں تاکہ آگے کا راستہ سب کی توجہ  مرکوز ہو ،اس کے بعد افراط زر کو ایدریس کرنا چاہئے،کرنٹ کاؤنٹ کا بڑھتا خسارہ  توجہ کامتقاضی ہے ،درآمدات کو سلو ڈاون کیا جائے ،حکومت نے گذشتہ چند ماہ میںکچھ خاص پورگرام شروع کئے ہیں،بظاہر تو ان کا مقصدخود انحصاری کو ہر سطح پر بڑھانا ہے جیسے کامیاب جوان  اور قرضے دینے کی دوسری مدات شامل ہیں،ان پروگراموں کے آخراجات پر اس وقت نظرثانی کی ضرورت ہے ،کوشش کی جائے کہ جو بھی حالات ہو  ںپی ایس ڈی پی کے خرچ کو تحفظ دیا جائے ،باقی تما م مدات میں کٹوتی کی جائے ،آئی ایم ایف کے پروگرام میں تو رہا جائے ،اگرچہ اس کی بات چیت ادھوری ہے کیونکہ مالیاتی ادارہ ریونیو بڑھانے کے بارے میں حکومت کی حکمت عملی پر اعتبار نہیںکر رہا ہے ،اکتوبر سے دسمبر کی سہ ماہی کے نتائج صرف اسی صورت میں مدد دے سکیں گے اگرملک کے ادائیگی کے توازن میں جان پیدا  ہو جائے ،وزیر اعظم  سعودی عرب میں ہیں ،ماضی کی طرح اگر اس بار بھی  سعودی بجٹ سپورٹ مل جائے تو حکومت کو کچھ سکھ کا سانس مل سکے گا جس میں گھر درست کیا جا سکتا ہے ،بہ صورت دیگر عوم  تو تکلیف میں ہیں ،حکومت  کے پاؤں تلے سے ریت نکلتی رہے گی،اب کام  کرنا یا معذرت کا فیصلہ کن مرحلہ آ چکا ہے ۔چلتے چلتے پوری قوم کو کرکٹ کے میچ میں شاندار  فتح کی مبارک باد،جڑی ہوئی ٹیم ہی بہتر نتایج دے سکتی ہے،اس میں بھی سبق ہے ۔

ای پیپر دی نیشن