پاکستان میں ٹرانس جینڈر کا غیرمناسب قانون

ٹرانس جینڈر پرسن کے حوالے سے ایک قانون پر کچھ دنوں سے دینی حلقوں میں بحث حل رہی ہے۔ یہ قانون 2018ء میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہوا تھا جس کا عنوان تھا ’’خواجہ سرا اور اس قسم کے دیگر افراد کے حقوق کا تحفظ‘‘ خواجہ سرا ملک میں بہت کم تعداد میں موجود ہیں۔ کچھ اوریجنل ہیں، کچھ تکلیف کے ساتھ ہیں اور کچھ کو اب مزید تکلف کے ساتھ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت دو جنسیں پیدا کی ہیں، تیسری جنس اللہ تعالیٰ نے نہیں بنائی۔ خواجہ سرا یا خنثیٰ وغیرہ کوئی الگ جنس نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ معذور افراد ہیں۔ جیسے نابینا معذور ہے، کوئی الگ جنس نہیں ہے، پیدائشی بہرہ معذور ہے، کوئی الگ جنس ہے، اسی طرح پیدائشی گونگا الگ جنس نہیں ہے، بلکہ معذور ہے۔ بالکل اسی طرح خواجہ سرا بھی معذور افراد ہیں کہ وہ ایک صلاحیت سے محروم ہیں اور معذور کے درجے میں ہیں، یہ الگ جنس نہیں ہے کہ ان کو الگ جنس کے طور پر متعارف کروایا جائے۔ انکے حقوق ہیں، شریعت ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، اور انکے معاملات کا فیصلہ پوری توجہ سے کرتی ہے۔ 
مگر ہوا یہ کہ 2018ء میں مستقل عنوان دے کر ان کو ایک الگ جنس کے طور پر پیش کیا گیا اور انکے حقوق کے تحفظ کے نام سے قانون سازی کی گئی۔ اس میں اصولی غلطی یہی تھی، کیونکہ خواجہ سرا کوئی الگ جنس نہیں ہے بلکہ یہ معذور افراد کا ٹائٹل ہے، جیسے گونگے، بہرے ، نابینا اور لنگڑے ہیں۔ انکے حقوق کا تحفظ ان کا حق ہے۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ ان عنوان سے جو قانون سازی کی گئی، اسی عنوان کے مغالطے کی وجہ سے اصل بات کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہوئی۔ حالانکہ قومی اسمبلی میں جب یہ قانون پیش ہوا تو قائمہ کمیٹی میں دو خواتین ممبران جمعیتہ علماء اسلام کی عائشہ سید صاحبہ نے تفصیل کے ساتھ اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ قانون شریعت کیخلاف ہے، اس بارے میں علماء سے پوچھا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل سے بات کی جائے  لیکن اسمبلی کے آخری سیشن، جس کے بعد اسمبلی تحلیل ہو گئی اور الیکشن کا ہنگامہ شروع ہو گیا، اس میں اس بل کو پاس کر دیا گیا، اس لیے لوگوں کی توجہ نہیں ہوئی۔ مگر جب لوگوں نے اس کو پڑھا اور اسکی طرف توجہ ہوئی تو اعتراض ہوا کہ یہ تو شریعت کیخلاف ہے اور جب شریعت کیخلاف ہے تو ملک کے دستور کے بھی خلاف ہے۔ اس پر کچھ دنوں سے بات چل رہی ہے، کئی علماء نے اس پر لکھا ہے، لیکن ابتدائی موقع پر توجہ اس لیے نہیں ہوئی کہ ایک تو اسمبلی تحلیل ہو گئی تھی، اسمبلی میں اسکے بعد اس پر تفصیل سے بحث نہیں ہوئی، اور دوسرا یہ کہ اس کا ٹائٹل معذوروں کے حقوق کے تحفظ کا تھا۔ اس ٹائٹل کی ہمدردی کے نیچے سب کچھ چھپ گیا۔ اب ظاہر ہو رہا ہے تو اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ مختلف دینی حلقے اس پر احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ قانون شریعت کے خلاف ہے۔ مثلاً اس میں ہر شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص بالغ ہو، وہ نادرا میں درخواست دے جس میں ہر شخص اپنی جنس خود طے کریگا کہ میں مرد ہوں یا عورت اور وہ جو جنس طے کر دیگا، نادرا پابند ہے کہ اس کے مطابق اس کو شناختی کارڈ جاری کرے۔ مثلاً ایک شخص نادرا میں حلفیہ بیان دیتا ہے کہ میں عورت ہوں، تو نادرا تحقیق نہیں کریگا، بلکہ اسکے حلفیہ بیان پر اس کو عورت کا شناختی کارڈ جاری کریگا یا اگر کوئی عورت حلف نامہ داخل کرتی ہے کہ میں مرد ہوں تو نادرا کے ذمے تحقیق نہیں ہے، بلکہ اسکے حلفیہ بیان دینے پر اس کو مرد کا شناختی کارڈ جاری کریگا۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نادرا میں خود کو عورت رجسٹر کروا لیتا ہے جو کہ مشکل نہیں ہے، بلکہ اس کیلئے حلفیہ بیان ہی کافی ہے اور پھر وہ کسی مرد سے شاد کرتا ہے تو یہ شادی قانوناً درست شمار ہو گی۔ یہ مرد کی مرد سے شادی صرف ریکارڈ کے فرق کے ساتھ قانوناً درست ہو گی۔ اسی طرح اگر کوئی عورت خود کو نادرا میں مرد لکھوا لیتی ہے تو وہ مرد کی طرح وراثت کی برابر حقدار شرعاً تو نہیں ہے مگر قانوناً ہو گی۔ اس قانون کے بہت سے مفاسد سامنے آ رہے ہیں، جو جوں اس کا ایک ایک پرت کھل رہا ہے اسکی خرابیاں واضح ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے دو مطالبے چل رہے ہیں: اس وقت سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ترمیمی بل پیش کر رکھا ہے کہ اس قانون میں چند ترامیم کر دی جائیں تو یہ کسی درجے میں قابل قبول ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں عورت ہوں تو اسکے دعوے پر اس کو شناختی کارڈ جاری نہ کیا جائے بلکہ میڈیکل چیک اپ کروایا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے اس طرح کی کچھ ترامیم پیش کر رکھی ہیں جبکہ جمعیتہ علماء اسلام کے سینیٹر عطاء الرحمن جو مولانا فضل الرحمن کے بھائی ہیں، انہوں نے قرارداد پیش کی ہے کہ اس قانون کو منسوخ کیا جائے اور اسکے متبادل قانون لایا جائے۔ آج میں نے کچھ ڈاکٹر صاحبان سے رابطہ کیا ہے کہ میڈیکل فورم سے بھی بات آنی چاہیے کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ قانون کہ جو مرد بھی اپنے آپ کو عورت کہہ دے وہ عورت ہے، اور جو عورت اپنے آپ کو مرد کہہ دے وہ مرد ہے، یہ کیسا قانون ہے؟

ای پیپر دی نیشن