ملکی اور عالمی سطح کی معروف و مقبول شخصیات جن کو ایامِ اقتدار اور بعد ازاقتدارانتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو وہ دنیا میں بہت کم ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ، ان قد آور سیاسی شخصیات میں ایک بااصول اور عوام دوست سیاستدان ڈاکٹر غلام حسین بھی ہیں جنہوں نے ہمیشہ اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے سیاست میں آنے سے پہلے سماجی اور فلاحی کاموں میں محنت ، لگن ، جذبہ ایثار اور ایمانداری سے اجتماعی حقوق کیلئے بھر پور جدوجہد کی اپنے علاقے جہلم کے بائیس گائوں ( بائی پنڈ ) میں آمریت کے دور میں غریب عوام کے حقوق اور علاقے کے کسانوں کی بہبود کیلئے کسان کونسل قائم کرکے سماجی سرگرمیوں میں متحرک ہو ئے ، جہلم کے پس ماندہ علاقے بائی دیس میں پہلے ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے ناطے ان کی پہلی ترجیح ان کا آبائی علاقہ بائی دیس تھا جس میں علاج معالجے کی کوئی جدید سہولت نہیں تھی ۔
کسان کونسل کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر صاحب سیاست میں آئیں پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی جہلم سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ کیلئے رجوع کیا لیکن انہوںنے انکار کر دیا اس سے پیشتر پیپلز پارٹی علاقے کے جاگیردارراجہ لہرا سب کے نامناسب رویئے کا سامنا کرچکی تھی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے چودھری فضل الٰہی مرحوم کو ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا لیکن وہ نہ مانے تو بھٹو نے ڈاکٹر غلام حسین سے روالپنڈی میں ملاقات کی اور پوچھا پارٹی کا ٹکٹ کیوں نہیں لیتے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ سر میں آپ کو ووٹ بھی دوں گا اور مکمل سپورٹ بھی کروں گا لیکن میں ہسپتال نہیںچھوڑ سکتا ، جس پر بھٹو نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ ٹھیک ہے تم ہسپتال چلائو ، میں جاگیریں سنبھالتا ہوں ، کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ ذاتی ترجیحات کا وقت نہیں ہے ‘‘ ۔ ڈاکٹر غلام حسین پیپلز پارٹی کے ورکروں سے بڑا قریبی اور پیار کا رشتہ رکھتے ہیں ، ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکناں اور قائدین کو جیلوں میں بند کیا گیا کوڑے مارے گئے ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری اور منتخب حکومت ختم ہونے کے بعد ایک لمبے عرصے تک پابند سلاسل رہے، ایک دن اٹک جیل سے انہیں یہ کہہ کر اسلام آباد لایا گیا کہ بڑے افسران سے آپکی میٹنگ ہو گی جس کے بعد آپ کو رہا کردیا جائے گا ، لیکن بغیر کسی میٹنگ کے اسلام آباد سے لاہور ایئرپورٹ جب لایا گیا تو ڈاکٹر غلام حسین نے بھانپ لیا کہ یہ ملک بدر کرنے لگے ہیں جس پر انہوں نے احتجاج کیا کہ میں تو اس ملک کا شہری ہوں یہ میرا ملک ہے مجھے کیوں ملک سے باہر بھیج رہے ہو اسی دوران ڈاکٹر غلام حسین کو ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں ڈاکٹر صاحب نے ہتھکڑیوں والاہاتھ ایک اہلکار کے منہ پر دے مارا ، جبری ملک بدر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو دمشق بھیج دیا گیا ۔ڈاکٹر غلام حسین ملک بدری کے دوران بھی پیپلز پارٹی کے کارکنان سے رابطے میں رہے ، دمشق میں رہتے ہوئے ڈاکٹر غلام حسین سمجھتے تھے کہ ضیاء الحق کے منفی پروپیگنڈے کا عوامی سطح پر جواب دینے کیلئے دمشق بہتر مقام نہیں، لہذا انہوں نے برطانیہ کیلئے کوششیں کیں جو کہ با ر آور نہ ہوسکیں تو یو این او کو حقائق پر مبنی ایک خط ارسال کیا ، کوشش بارآور ثابت ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کو سویڈن کی فلاحی ریاست میں سیاسی پناہ مل گئی ، اس سے ڈاکٹر غلام حسین نے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ میں پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنان سے رابطے کئے ، کئی میٹنگ کیں اور پارٹی کو منظم کیا اسکے ساتھ ساتھ ضیاء الحق کے منفی پراپیگنڈہ کا میڈیا میں پارٹی کا اور اپنا نقطہ نظر پیش کیا جرمنی ، یوکے ، مصر اور امریکہ میں پارٹی کیلئے سرگرم رہے ضیاء الحق کے امریکہ کے دورے کے دوران ڈاکٹر غلام حسین نے امریکہ کے پانچ اور کینیڈا کے پانچ شہروں میں ضیاء الحق کے خلاف مظاہرہ کیا اور جلوسوں کی قیادت کی ۔
ڈاکٹر غلام حسین پاکستان کے واحد سیاستداں ہیں جنہوں نے ضیاء آمریت میں ’’ اسٹیٹس کو مسٹ گو ‘‘ کا نعرہ بلند کیا، ملک میں آمریت کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر غلام حسین پاکستان آئے ایئر پورٹ پر اترتے ہی سجدہ ریز ہوئے سجدے سے سر اٹھایا تو سامنے پولیس کو پایا جو انہیں گرفتار کرنے کیلئے موجود تھی ا نہیں اٹک جیل لے جایا گیا ، اکتوبر 1988 ء میں اٹک جیل سے رہائی ملتے ہی کارکنوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں نواب آباد واہ کینٹ میں جلسہ کیا اور دوبارہ ملکی سیاست میں متحرک ہو گئے، میرا ڈاکٹر صاحب سے ایک طویل عرصہ بعد فون پر رابطہ ہوا، سلام دعا ہوتے ہی خوشی سے قہقہ لگایا اور کہا ’’ شیخ صاحب کیا وقت یاد کر ادیا آپ نے ،ہم تو اصل بھٹو پارٹی سے ہیں ناں ‘‘ ڈاکٹر غلام حسین کی سیاسی جدوجہد میں بہت سے نشیب و فرازآئے لیکن وہ ملک سے محبت و استحکام ور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کسی لالچ کے بغیر خلوص ِ دل سے کام کرتے رہے ۔
ڈاکٹر غلام حسین نے اپنی نجی اور سیاسی زندگی پر چار سو آٹھ صفحات پر مشتمل ’’ میری داستان ِ جدوجہد ‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے جو کہ انکی سیاسی زندگی کا احاطہ کرتی ہے ، یہ کتاب سیاسی کارکنوں اور سیاست سے وابستہ افرادکیلئے انسائیکلوپیڈیا ہے، یہ کتاب سیاست اور سیاسی نظریہ کو سمجھنے اور محکوم طبقات کے حقوق کیلئے پُرامن جدوجہد کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے ۔