آج کی نشست میں ولفرڈ سکیون بلنٹ Wilfred Scawen Blunt اور جان برائٹ John Bright کا ذکر مقصود ہے۔ تاجِ برطانیہ کے تسلط کے ہنگام چند برطانوی مدبرین نے اپنی قوم کو غلام ہندوستان کے مستقبل کے متعلق متنبہ کردیا تھا۔
24؍جون1858ء کے روز برطانوی دارالعوام میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ یعنی برطانوی کمپنی کی جگہ تاجِ برطانیہ کے تسلط کا پہلا دستور زیرغور تھا۔ اس نے اپنی تقریر میں حکومت کو ہندوستان کے سیاسی و انتظامی امور کے متعلق درج ذیل امور کی طرف متوجہ کیا۔
(1گورنر جنرل کا عہدہ ہٹا کر حاکم و محکوم کے درمیان فاصلہ کم کیا جائے۔ (2ہندوستان میں وحدانی طرز حکومت کی جگہ پانچ ہم مرتبہ پریزیڈنسیز قائم کی جائیں تاکہ مرور زمانہ میں امن و امان، معاشی، مالی، قانونی اور عسکری سطح پر خودمختار ریاستیں بن سکیں۔ (3یہ پانچ ریاستیں لاہور، کلکتہ (مسلم اکثریتی علاقے) کے علاوہ تین دیگر مقامات۔۔۔بمبئی، مدراس، آگرہ (غیرمسلم اکثریتی علاقے)۔۔۔ میں قائم کی جائیں۔
(4تاج برطانیہ کو زود یا بدیر ہندوستان سے نکلنا ہوگا۔ اس وقت برطانیہ کا یہ فخر ہو کہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں کو بے یقینی اور فساد کی جگہ منظم ریاستوں کی شکل میں چھوڑا ہے۔(5یہ تجویز اس لئے دی جارہی ہے کہ ہندوستان میں مختلف قسم کی اقوام آباد ہیں۔ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور کوئی ہوشمند اتنے اختلافات کے باوجود انہیں ایک متحدہ ریاست میں نہیں بدل سکتا۔
جان برائٹ نے یہ تجاویز تفنن طبع کیلئے نہ دی تھیں۔ یہ ادراک اس کا یقین تھا جس کا اظہار ازاں بعد اس نے 1877ء دسمبر مانچسٹر میں انڈین ایسوسی ایشن میں تقریر کرتے ہوئے کیا کہ وہ مستقبل میں خودمختار آزاد ریاستیں ہندوستان میں دیکھ رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود مغلوں نے کسی حد تک انتظامی امور کیلئے ہندوستان کے مختلف علاقوں کو وحدت عطا کی تھی لیکن مغلوں کے دور میں ہی وحدت پارہ پارہ ہونا شروع ہوئی اور مغل حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد تاج برطانیہ نے ہندوستان کو انتظامی سطح پر تین حصوں میں تقسیم کیا ... برٹش انڈیا جہاں تاج برطانیہ کا قانون نافذ تھا، دوسرا راجوں مہاراجوں اور نوابوں کی ریاستیں جو معاہدوں کے تحت خودمختار تھیں اور تیسری سطح پر سرحدی علاقے تھے۔آزاد مسلم اکثریتی ریاست کے ابتدائی تصور میں دوسرا برطانوی مفکر مستقبل بین ولفرڈ سکیون بلنٹ Wilfred Scawen Blunt تھا۔ لندن سے شائع ہونے والے 14 روزہ جریدہ فارٹ نائٹلی ریویو 1881-82ء میں اس کے پانچ مضمون شائع ہوئے جو بعد میں Ideas about India کے عنوان سے کتابی شکل میں ظہور پذیر ہوئے۔اس مفکر کی نظر میں ہندوستان اپنی وسعت کے لحاظ سے اور مختلف النوع اقوام، مذاہب، تہذیب و تمدن، رسوم اور زبانوں کے لحاظ سے ایک ملک نہیں کہلا سکتا۔
1883ء میں بلنٹ کلکتہ آیا جہاں اس نے یہ تصور دیا کہ ہندوستان کو مذہبی سطح پر تقسیم ہونا چاہئے۔ شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک حکومت ہو اور جنوبی ہندوستان میں غیرمسلم حکومت قائم ہو۔ کیا یہ حکومتیں وفاق ہوں گی یا کوئی اور صورت، اس کے متعلق بلنٹ خاموش تھا۔جان برائٹ (1858ئ) اور بلنٹ (1881-83ئ) کے درمیان سرسید احمد خان (1867-1888 ئ) سیاسی افق پر نظر آتے ہیں جو مسلمانوں کے زوال اور تاج برطانیہ کے امتیازی سلوک کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ ہندوؤں نے اردو کے خلاف تحریک جاری کر رکھی تھی۔ الطاف حسین حالیؔ کیمطابق سرسید نے بنارس کے کمشنر شیکسپیئر کو 1867ء میں کہا کہ ہندو اور مسلمانوں کا اکٹھا رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ سوچ بالآخر دوقومی نظریہ کے تصور میں ظاہر ہوئی۔ سرسید کے نظریہ کی دلیلیں حسب ذیل تھیں:
-1ہندوستان میں نئے سیاسی نظام کی بنیاد انتخابات پر ہے۔ یہاں غیرمسلم اکثریت میں ہیں لہٰذا منتخب حکومت پر ہمیشہ غیرمسلموں کی اجارہ داری ہوگی۔ -2اس صورت حال میں مسلمانوں کے حقوق اور مفادات خطرے میں رہیں گے۔ -3مسلمانوں کی تہذیب و تمدن بری طرح متاثر ہوگی۔ -4مسلمان تعلیمی سطح پر بہت پیچھے ہیں۔ -5مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ قوم ہیں۔-6 1885ء میں برطانوی ایماء پر آل انڈیا کانگریس معرضِ وجود میں آئی جس کے ارکان میں ہندو غالب اکثریت میں تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کو اس جماعت میں شرکت سے منع کر دیا۔
لیکن ان دلیلوں کے باوجود انہوں نے علیحدہ وطن کا تصور نہ دیا۔ اس عہدکی تاریخ ہمیں چند ایسے کرداروں سے متعارف کراتی ہے جنہیں ہم پاکستان کے تصور کے اولین معماروں میں شمار کر سکتے ہیں۔ ان محسنوں کا ذکر ان شاء اللہ اگلی نشست میں پڑھ سکیں گے۔
کیوں ساز کے پردے میں مستور ہو لَے تیری
تو نغمۂ رنگیں ہے، ہر گوش پہ عریاں ہو