عمران خان لانگ مارچ نہیں کریں گے۔ منظور وسان
خداجانے آج کل منظور و سان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ سیاست سے زیادہ پیش گوئیوں پہ دھیان دے رہے ہیں۔ عمران خان کے لانگ مارچ کو ہی لے لیں۔ خان جی تو پے در پے اجلاس کر رہے ہیںحکمت عملی طے کر رہے ہیں اعلان کر چکے ہیں کہ جمعرات یا جمعہ کو اعلان کرونگا۔ پی ٹی آئی کے کارکن بھی پُرجوش ہیں۔ پنجاب اور خیبر پی کے میں لنگوٹ کسے جارہے ہیں۔ اس بار تو پشاور اور لاہور تا اسلام آباد راستہ بھی صاف ہے:
کھانا ملے گا پینا ملے گا
لانگ مارچ میں سب کچھ ملے گا
کا منظر نظر آ رہا ہے۔ ایسی مثبت صورتحال سے کون فائدہ نہ اٹھائے، کیا پتا بعد میں حالات بدل جائیں اور یہ سہولتیں دستیاب نہ ہوں۔ اب تو جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے شاہ خرچ ساتھی پارٹی میں موجود نہیں جو ’لکھ لٹ‘ یعنی ہاتھ کے کھلے تھے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی والے مصر ہیں کہ لانگ مارچ حتمی اور یقینی ہے۔ اب اگر یہ لانگ مارچ ہوتا ہے تو منظور و سان کی پیش گوئیوں کی دکان ٹھپ ہو جائے گی اگر نہیں ہوتا تو پی ٹی آئی کی ٹھپ ہو گی۔ منظور و سان بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ راہ بھی دکھائی ہے کہ ہو سکتا ہے خان صاحب کارکنوں کو اپنے اپنے شہروں قصبوں دیہاتوں میں احتجاج کا حکم دے کر لانگ مارچ سے اپنا پہلو بچا لیں مگر یہ بات بھی ہضم نہیں ہوئی کیونکہ گزشتہ 4 ماہ سے وہ عوام کو اس بات کے لیے تیار کر رہے تھے کہ لانگ مارچ کرنا ہے اسلام آباد جا کر دھرنا دینا ہے مگر شاید وہ کسی کی انگلی کے اشارے کے منتظر ہیں جو ابھی تک نہیں اٹھی۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
٭٭٭٭٭
بھارتی نژاد رشی سونک برطانیہ کے نئے وزیر اعظم منتخب
برطانوی سیاست میں جو آنا جانا لگا ہوا ہے۔ اس کے مطابق گزشتہ 3 ماہ میں یہ تیسرے وزیر اعظم ہوں گے۔ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں مغربی جمہوری نظام رائج ہے وہ اسی کی کوکھ سے جنم لے کر بنے ہیں۔ اس کے باوجود ترقی پذیر ممالک اور کم ترقی یافتہ ممالک میں جو نام نہاد جمہوری نظام رائج ہے اس کے باوجود وہاں کے عوام اس کے ثمرات سے محروم ہیں لیکن برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں عوام اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اب یہ بھی ایک حیران کن بات ہے یا تاریخ کا جبر کہ اس نظام کی بدولت ایک بھارتی نژاد باشندہ آج برطانیہ کا وزیر اعظم بنا ہے۔ وہی برصغیر جسے کم و بیش 150 سال تاج برطانیہ نے اپنا غلام بنائے رکھا۔ آج اسی غلام ملک کا بندہ جمہوری نظام کی بدولت اپنے حاکموں کے ملک پر راج کرے گا۔ کسی نے ایسا سوچا بھی نہیں ہو گا۔ یاد رہے اس سے قبل امریکی صدارتی انتخاب میں اوباما کا انتخاب بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ جہاں غلام کالوں سے تعلق رکھنے والا اوباما امریکہ کا صدر بنا۔ ان باتوں سے سبق ملتا ہے کہ ذات پات اونچ نیچ سے ہٹ کرجو جوہر قابل ہوتا ہے وہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری نظام میں جلد اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ دعا ہے یہ شخص جو برطانیہ میں رہتا ہے اس کی سوچ بھی ویسی ہی جمہوری ہو۔ وہ کسی تعصب والی پالیسی کی بجائے سب کے لیے یکساں رویہ رکھے ورنہ ڈر تو یہی رہتا ہے کہ کہیں اس پر ہندوانہ سوچ غالب نہ آئے اور وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف منفی رویہ اختیار نہ کرے۔
٭٭٭٭٭
ہنگامہ آرائی کا الزام، 18 نون لیگی ارکان اسمبلی کی رکنیت معطل
ملکی حالات واقعات سے لگتا ہے پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی خاصے متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے ان میں بھی روح چنگیزی بیدار ہونے لگی ہے۔ اسمبلی میں کہاں نعرے بازی نہیں ہوتی۔ سپیکر کے ڈائس کے آگے شور شرابا اور ھلا گلا نہیں ہوتا۔ قومی اسمبلی میں تو سپیکر پر چادر چوڑیاں تک پھینکی گئی اور ایجنڈے کی بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر اچھالی جاتی ہیں مگر سپیکر خواہ وہ قومی اسمبلی کا ہو یا صوبائی اسمبلی کا وہ نہایت تحمل سے سب کچھ برداشت کرتا ہے اسمبلی کی کارروائی چلاتا ہے۔ اب گزشتہ روز جس طرح پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے اسمبلی کے ان ارکان کے خلاف معطلی کا آڈر جاری کیا جو عمران خان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے وہ غیر جمہوری لگتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اور اسی پنجاب اسمبلی میں نواز شریف ، شہباز شریف کے خلاف بھی اس کے نعرے لگتے رہے ہیں تب تو کسی کو معطل نہیں کیا گیا۔ اب یہ ناروا سلوک کیوں؟ ایک دو نہیں پورے 18 ارکان اسمبلی کو نشانہ بنایا گیا۔ حیرت کی بات ہے اس پر وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی جو جمہوریت کے دلدادہ ہیں انہوں نے بھی کچھ نہ کہا۔ سیاست میں موسم اور حکمران بدلتے رہتے ہیں۔ کل کو ایسا ہی پی ٹی آئی والے اگر کرتے ہیں تو ان کے خلاف بھی ایسا ہی ایکشن لیا جائے تو کیا وہ بجا ہو گا، نہیں، ہرگز نہیں۔ سپیکر غیر جانبدار ہو جاتا ہے جیسے صدر مملکت ہوتا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کی نیابت نہیں کرتا سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے مگر لگتا ہے ہمارے صدر مملکت اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر ابھی تک پارٹی کے حصار سے باہر نہیں نکلے۔ اس پر تو یہی کہہ سکتے ہیں:
گلہ اس کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے
٭٭٭٭٭
ٹریفک حادثے میں دولہا کی والدہ اور دلہن سمیت 7 باراتی جاں بحق
بے شک زندگی اور موت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ جو آیا ہے اس نے جانا بھی ہے مگر ہمارے ہاں جس طرح سڑکوں پر حادثات کی وجہ سے قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں ، ہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں، ایسا شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہے۔ ٹریفک حادثات میں ہمارا ملک دنیا کے بدترین حادثوں والے ممالک میں سے ایک ہے۔ کم عمر اور ناتجربہ کار ڈرائیور، نشہ ، تیز رفتاری اوورلوڈنگ ، ٹریفک قوانین سے لاعلمی ان کی خلاف ورزی ، صحت کے مسائل ، نظر کی کمزوری کے علاوہ نیند کی کمی بھی ایسے حادثات کا باعث بنتی ہے۔ابھی گزشتہ ماہ اور رواں ماہ ٹریفک حادثات میں درجنوں مسافر ہائی ویز پر بسوں میں زندہ جل کر مر گئے۔ اب گزشتہ روز چوآسیدن شاہ روڈ پر ہونے والا یہ حادثہ اس لیے بھی افسوسناک تھا کہ اس میںدولہا اپنی والدہ ، دلہن اور سات باراتیوں سمیت لقمہ اجل بن گئے۔ یوں
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
بے شک یہ نہایت غم و اندوہ والا واقعہ ہے۔ ان گھروں میں کیا حال ہو گا جہاں سہرے اور سیج کے پھول سجے ہوئے تھے۔ ایسے المناک واقعات کو روکنے کے لیے ہمیں نہایت سختی سے اپنا ٹریفک نظام درست کرنا ہو گا۔ اناڑی، نشئی، کم عمر، ناتجربہ کار ڈرائیوروں سے جان چھڑانا ہو گی۔ اعلیٰ و ادنیٰ سب کے لیے ٹریفک قوانین کی پابندی لازم کرنا ہو گی۔ اشارے توڑنا، اوورلوڈنگ ، تیز رفتاری اور لین اور ون وے کی خلاف ورزی ختم کرنا ہو گی۔ پوری مہذب دنیا میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ اب ہمارے ہاں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا تاکہ المناک حادثات سے محفوظ رہا جا سکے ورنہ یہ سہرے کے پھول یونہی سڑکوں پر مسلے جاتے رہیں گے۔