عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
خیبر پختونخوا کی یونیورسٹی میں قابل اعتراض میوزک ایونٹ کا معاملہ
حساس نوعیت کے معاملے پراسلامیہ کالج سول لائنز میں شعبہ تاریخ کے ہیڈ اسسٹنٹ پروفیسر حنیف عباسی سے گفتگو
نجی کمپنی کے منتظمین نے ادارے کو لاعلم رکھا، جسے اس کام کا کانٹریکٹ دیا گیا تھا:انتظامیہ یونیورسٹی
خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی جانب سے این سی ایس یونیورسٹی سسٹم کو نوٹس جاری ، ادارے کا الحاق ختم کرنے کی وارننگ
ہمارا مستقبل نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے۔ آج ان کی جیسی تربیت کی جائے گی ،انھیں جس ماحول میں ڈھالا جائے گا مستقبل میںیہ وہی ہمیں لوٹائیں کریں گے۔ انہیں درست سمت دینا والدین اور تعلیمی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔مگر افسوس اس بات پر کہ تفریح کے نام پر صحت افزاء غیر نصابی سرگرمیوں کی بجائے طالب علموں کو ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنایا جا رہا ہے جو انہیںاخلاقی اعتبار سے پستی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔
پشاور کے ایک تعلیمی ادارے میں ہونے والے میوزک پروگرام کی متعدد ویڈیوز پاکستان کے سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔تعلیمی اداروں میں میوزک کنسرٹ منعقد ہونا عام سی بات بن چکی ہے لیکن اس ایونٹ میں قابل فکر امر یہ ہے کہ نامناسب لباس زیب تن کیے غیرملکی خاتون گلوکارہ بوائز حاضرین کے سامنے پرفارم کرتی رہی اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔
در اصل صوبہ خیبر پحتونخوا کے شہر پشاور میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) سے الحاق شدہ این سی ایس یونیورسٹی سسٹم میں ’ہنر میلا‘ نامی تقریب منعقد ہوئی تھی جس کا یہ میوزک پروگرام حصہ تھا۔
اس ایونٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعدیونیورسٹی انتظامیہ شدیدتنقید کی زد میں ہے ۔کئی صارفین یہ شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں کہ گلوکارہ کا لباس ’مناسب‘ نہیں اور یہ کہ ایک غیر ملکی گلوکارہ کو پشاور کی یونیورسٹی میں پرفارم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
تاہم کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جن کی رائے میں غیر ملکی خاتون گلوکارہ کا پشاور میں آنا ’طالبان کے آنے سے بہتر ہے۔‘
اْدھر سوشل میڈیا پر ہوتی بے تحاشہ تنقید کو بھانپتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پروگرام کے انعقاد پر معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ اس حوالے سے اْس نجی کمپنی کے منتظمین نے انھیں لاعلم رکھا تھا جسے اس کام کا کانٹریکٹ دیا گیا تھا۔اس تقریب کی کچھ ہفتوں پہلے سے تشہیر کی جا رہی تھی اور ٹکٹوں کی فروخت سے متعلق پوسٹوں میں بتایا گیا تھا کہ ہنر میلا میں موسیقی کے شو کے لیے دو انٹرنیشنل فنکار ’سیزر‘ اور ’مارز‘ آ رہے ہیں۔
یہ ویڈیوز منظر عام پر اس طرح آئیں کہ گلوکارہ کی اس پروگرام میں دی گئی پرفارمنس کو طلبا نے ریکارڈ کیا اور ویڈیوز بنا کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی جانب سے اس پرفارمنس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔واقعہ کے بعدپشاور میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد سلیم گنڈاپور نے ڈائریکٹر این سی ایس یونیورسٹی سسٹم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین روز میں وضاحت طلب کی ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ وضاحت نہ دینے کی صورت میں ڈسپلنری ایکشن لیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ادارے کا الحاق بھی ختم ہو سکتا ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ڈانس کرتی ایک لڑکی کی ’غیر اخلاقی‘ ویڈیوز گردش کر رہی ہے۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے تعلیمی ادارے میں ان سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔
'کے ایم یو کا نام اور لوگو استعمال کر کے ایسی سرگرمیاں کروانا قابل اعتراض ہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں تعلیمی اداروں پر لازم ہے کہ اخلاقی اقدار اور تقدس کو برقرار رکھیں۔
طالب علموں کے مستقبل سے متعلق حسا س نوعیت کے اس مسئلے پر ہم نے اسلامیہ کالج سول لائنز میں شعبہ تاریخ کے ہیڈ اسسٹنٹ پروفیسر حنیف عباسی سے بات کی ہے۔ حنیف عباسی اتحاد اساتذہ تنظیم کے صدر بھی ہیں۔
اس اہم مسئلے پر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
صحت مندازنہ تفریحی سرگرمیوں کے فقدان کے باعث آج ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ہم نے طالب علموں کی تفریح کے لیے مواقع محدود کر دیئے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کالج کا ماہانہ یا سالانہ رسالہ چھپتا تھا جس میں طالب علم اپنا نام چھپوانااعزاز سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ تقریری مقابلے، بیت بازی اور ان جیسی علم افروز سرگرمیوں میں نہ صرف حصہ لینے والوں کا جذبہ بلند ہوتا تھا بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کا بھی بھلا ہوجاتا تھا۔ اب تفریح کے نام پر بچوں کے ہاتھ میں موبائل ہے ،وہ جو موبائل میں دیکھتے ہیں وہی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن حدود متعین کرنا تعلیمی اداروں اور والدین کا کام ہے۔کسی تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کی جانب سے طالب علموں کی تفریح کے لیے ایسا پروگرام منعقد کرنا ہماری معاشرتی گراوٹ اوراقدار کی نمائندگی کررہا ہے۔پنجاب حکومت نے پنجاب بھر میں کلچر پروموشن کے لیے تعلیمی اداروں میں ایونٹ منعقد کروائے۔جس کے تحت کلچر ڈے منایا گیا۔ کلچر پروموشن میں بھی اقدار کی پاسدار ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پشاور کی اس یونیورسٹی نے کلچر کی آڑ میں اس ایونٹ کا اہتمام کیا ہو۔ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں میوزک کنسرٹس معمول بنتے جا رہے ہیں۔ کیا تعلیمی اداروں میں اس قسم کی سرگرمیوں کی گنجائش ہوتی ہے؟خیبر پختونخواء کی حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کا سختی سے نوٹس لے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔