یہ پندرہویں صدی کا قصہ ہے؟

Oct 26, 2022


ولاد ڈریکولا پندرویں صدی عیسوی کے وسطی دور میں تین مختلف اوقات میں ولاشیا کا حکمران رہا ہے۔ اس کے ظلم اور بربریت کے قصے صدیوں سے ناولوں، ڈراموں اور فلموں کا موضوع چلے آتے ہیں اگرچہ تاریخ دان اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے بڑے حریف سیکسن خاندان نے یہ قصے بڑھا چڑھا کر بیان کیے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اس نے قومی مفاد، اتحاد، حب الوطنی کے خوش کن نعروں کی آڑ میں لوگوں کو جاسوس اور غدار قرار دے کر انسانیت سوز سلوک روا رکھے سزا یابی کا معیار قانون کی بالادستی سے زیادہ ذاتی پسند و نا پسند پہ مبنی تھے۔ عثمانی سلطنت کے سفرائ نے دربار حاضری کے موقع پہ اپنی روایات کے پیش نظر پگڑیاں اتارنے سے انکار کر دیا تو اس نے ان کے سر پہ کیلیں ٹھکوا دیں کہ پگڑیاں کبھی اتر ہی نہ سکیں۔ اسی طرح اس نے لوہے کا ایک بڑا کڑاہ بنوا رکھا تھا جس پہ لکڑی کے بنے سوراخ تھے ملزموں کے سر ان لکڑی کے سوراخوں میں پھنسا کر کڑاہ کو پانی سے بھر کر نیچے آگ لگا دی جاتی حتیٰ کہ وہ بیچارے اس ابلے پانی میں جلھسنے کے باعث چیختے چلاتے جان کی بازی ہار جاتے۔اس کے مظالم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ تھے عورتوں پہ روا رکھے جانے والے مظالم کے تذکرہ آج کی نشست متعمل نہیں۔ یہ چند مثالیں ہیں اس ظالم حکمران سے منسوب مظالم اور پراذیت سزاو¿ں کی فہرست طویل اور اسقدر بھیانک ہے کہ آج جہاں بھی کوئی حکومتی جبر و زیادتی کا کوئی واقعہ ہو یا معاشرتی آزادی کے خلاف کوئی قانون سازی ہو اسے ڈریکولائی قانون draculain law قرار دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بھی انہی ڈریکولائی قوانین اور ان قوانین کے متوازی ماورائے قانون اقدامات کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ویسے تو ان کالے قوانین اور ماورائے قانون اقدامات سے پورا معاشرہ ہی متاثر ہوا ہے لیکن اس عمل کے براہ راست متاثرین سیاست دان اور میڈیا ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس سارے گھناونے کھیل میں ملوث بھی یہی دونوں شعبے سمجھے جا رہے ہیں کسی بھی سیاستدان یا صحافی کو گرفتار کرنا یا بلاعمل قانون اٹھا لینا معمول بن چکا ہے۔ اس کے علاو¿ہ سکرین یا آف سکرین کرنا پابندی لگانا وغیرہ کھیل بن چکا ہے اس تمام کھیل کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں کوئی بتانے کو تیار نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے کسی لیڈر یا کارکن پہ ڈراکولین حربے آزمائے جائیں تو اس کی حریف جماعت کے لیڈران و کارکنان اس عمل کو درست اور ضروری قرار دے کر اس کے حق میں دلائل پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد اسی جماعت کا خون پینے کیلیے ڈریکولا دانت تیز کرتا پایا جاتا ہے۔ یہی حال میڈیا کا بھی ہے میڈیا ہاو¿سز نے بھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں ایک دوسرے کے خلاف قانونی و غیر قانونی کاروائیوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ دونوں طبقات میں اکا دکا امثال کے علاو¿ہ اخلاقی جرات ہی نہیں کہ اپنے خلاف لگے الزامات کا دفاع کر سکیں عوام کو کھل کر کچھ بتا سکیں کہ ہو کیا رہا ہے ماورائے قانون اقدامات کا جو سلسلہ سابق دور میں چل رہا تھا وہ آج بھی جاری ہے دونوں ادوار کے واقعات کا جائزہ لیا جائے ان میں نظر آنے والی واضح مماثلت اس امر کی نشاندہی ہے کہ یہ ان کمزور حکومتوں کے بس کا کام نہیں بلکہ اس سب کے پیچھے کسی ان دیکھے ہاتھ کی کارفرمائی ہے۔ ہونا تو یہ چاھیے کہ اشاروں کنایوں میں اپنی بے اختیاری کا رونا رونے اور لولی لنگڑی حکومت قبول کرنے کی بجائے جرات انکار پیدا کرتے ہوئے خم ٹھونک ان عناصر کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں۔تاہم یہاں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں ڈٹ جانے یا خاموشی توڑنے کا مطلب مکمل تباہی بربادی ہے سیاستدانوں صحافیوں اور سرکاری ملازمین کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں ان کی نجی زندگی کے امور میں بھی رازداری باقی نہیں چادر چار دیواری کے تقدس کا کوئی تصور باقی نہیں رہا بلکہ اب سچ بولنے اور جرات انکار کا لازمی نتیجہ زندگی سے محرومی بھی ہو سکتا ہے میڈیا کے لیے شہید ارشد شریف کا واقعہ ایک ٹرنگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا ہے آج سے اگر تہیہ کر لیا جائے کہ باہمی اختلافات اور مثابقتی دوڑ میں صحافتی اخلاقیات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ان گھمبیر اور پر آشوب حالات میں جہاں طاقتور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر موجود ایسے ڈریکولائی عناصر کی نشاندہی کر کے ان کی سرگرمیوں پہ گہری نظر رکھیں اور حتی الامکان ان کے کردار کو محدود کیا جائے وہاں طاقت کے آئینی مراکز (پارلیمنٹ حکومت اور عدلیہ) کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض سے آگاہ رہیں اپنے مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض بلا خوف و خطر سرانجام دیں۔ آئینی طور پر نظام چلانے کے تین سٹیک ہولڈر اگر باہمی ربط کے تحت ایمانداری اور تندہی سے کام کریں تو ان کی تین حصوں میں % 33 کے حساب سے منقسم طاقت% 100 ہو سکتی ہے پھر کسی طالح آزما کو موقع نہیں مل سکے گا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ماضی قریب میں حکومت اور پارلیمان کبھی ایک صفحہ پہ نہیں پائی گئی سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات اور جھگڑے ذاتیات سے کبھی نکل ہی نہیں سکے میرا دعویٰ ہے کہ آج اگر حکومت پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کر کے اقدامات کرے اور عدلیہ ان اقدامات کا آئینی و قانونی دائرے میں تحفظ کرے تو کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو ماورائے قانون اقدامات کا سوچ بھی سکے۔

مزیدخبریں