21اکتوبر 2022 ءکو رات آٹھ بجے تمام ٹی وی چینلزایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کے اخراج کی خوشخبری سنا رہے تھے۔یہ ایک بہت بڑ ی خبر تھی جس کا قوم چار سال سے انتظار کر رہی تھی۔ پاکستان کو جون 2018ءمیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ الزام یہ تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ پاکستان گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔ سب سے پہلے فروری 2008ءمیں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی فراہم کردہ ہدایات پر عمل کرنا شروع کر دیا اور ان پر مکمل عمل درآمد کرکے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کر دیا۔ چنانچہ جون 2010ءمیں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکا ل دیا گیا۔دوسری مرتبہ 16فروری 2012ءکو گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔ الزام وہی پرانا تھا کہ پاکستان رقم فراہم کرکے دہشت گردوں کی معاونت کر رہاہے۔ دوبارہ ایک لمبی فہرست پاکستان کو تھما دی گئی اور جس پر عمل درآمد کرکے 26فروری 2015ءکو پاکستان ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔لیکن ہندوستان پاکستان کے پچھلے لگا رہا اور بار بار مختلف مواقع پر شور مچاتا رہا کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے۔ ہندوستان نے سفارتی حلقوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو تیسری مرتبہ جون 2018ءمیں گرے لسٹ میں ڈال دیا۔اس مرتبہ ہندوستان نے بھرپور پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ پاکستان دو مرتبہ گرے لسٹ سے باہر آنے کے بعد بھی دہشت گردوں کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ اس لئے اس مرتبہ اسے گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں منتقل کر دیا جائے۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال تھی کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے ارکان بھارتی پروپیگنڈہ سے متاثر ہو رہے تھے اور انہوں نے بہت سخت رویہ اپناتے ہوئے پاکستان کو بہت ہی کٹھن 27 نکاتی ایجنڈہ دے دیا کہ اس پر جلد از جلد عمل کرے ورنہ بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ ان 27نکات پر عمل در آمد اس لئے بھی مشکل تھا کہ بے شمار حکومتی اداروں کو اس سلسلے میں فعال کرنا ضروری تھا۔ جس کے لئے کافی وقت درکار تھا۔پاکستان نے ان نکات پر عمل درآمد شروع کر دیا۔جو بڑا صبر آزمااور انتھک محنت طلب تھا۔ پاکستان کے متعلقہ اداروں نے کیا کیا اقدامات کئے اور کن کوششوں کے نتیجہ میں پاکستان گرے لسٹ سے بھارتی لابی کے باوجود نکلنے میں کامیاب ہوا یہ ایک بڑی لمبی تفصیل ہے جو قارئین کو دلچسپی کے لئے یہاں رقم کی جارہی ہے۔
فاننشل ایکشن ٹاسک فورس نے جو مختلف ممالک کے ممبران پرمشتمل ہے۔ پاکستان کو 27نکاتی پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے لئے کہا ۔جس سے دہشت گردوں کی مالی معاونت ناممکن ہو جائے گی۔ یہ بھی پاکستان کو بتا دیا گیا کہ ایف اے ٹی ایف باقاعدگی سے اپنے اجلاس وقفوں سے کرتی رہے گی تاکہ پاکستان کی کوششوں پر نظر رکھے اور تمام نکات پر عمل درآمد کی صورت میںپاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دے یا پھر پاکستان کے عمل درآمد کی رفتار سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے بلیک لسٹ میںڈ ال دے۔ چنانچہ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے پاکستان نے فوری طور پر 27نکات پر عمل درآمدشروع کر دیا۔ 16اگست 2018ءسے 8مارچ 2019ءتک ایک کمیٹی اس پر کام کرتی رہی۔ 11مئی 2019ءکو ایف بی آر نے ایک پالیسی تیار کی جس میں دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے والے افراد یا نجی اداروں کے خلاف کاروائی کرنے کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ 25 جولائی 2019ءکو ایف بی آر میں انسداد مالی معاونت برائے دہشت گردی کا سیل قائم کیا گیا۔ 25اگست کو وزیر اعظم پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے احداف کی مانیٹرنگ کے لئے ایک کمیٹی قائم کی۔ 18اکتوبر 2019ءکو ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیااور پاکستان کو ہدایت کی گی کہ فرور ی2020ءتک ایکشن پلان پر پوری طرح مکمل کرے۔ 29اکتوبر 2019ءکو وزارت داخلہ نے بھی ایک سیل قائم کیا جس کا کام ایف اے ٹی ایف کو ہدایات کے مطابق ضروری معاونت فراہم کرنا تھا۔21فروری 2020ءکو پروگرام کے مطابق ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی جانب سے ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ لیکن تسلی بخش پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 24فروری 2020ءکو ایف بی آر نے یکطرفہ طور پر تمام پراپرٹی ڈیلرز کو انکم ٹیکس دینے والوں کی لسٹ میں داخل کر لیا اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ تمام پراپرٹی ڈیلز کے کاروبار پر نظر رکھے۔ 17اگست 2020ءکو سینٹ آف پاکستان نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق پانچ بلوںمیں سے ایک بل منظور کر لیا۔18اگست 2020ءکو یعنی اگلے ہی دن سینٹ نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو اور بلوں کی منظوری دے دی۔16ستمبر 2020ءکو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر باقی دو بلوں کی بھی منظور ی دے دی۔اس طرح ایف اے ٹی ایف سے متعلق تمام پانچ بل پاس کرلئے گئے اور ایک بہت مشکل مرحلہ طے پا گیا۔ یہ تمام بل معمولی اکثریت سے پاس ہوئے کیونکہ اپوزیشن نے بھرپور مخالفت کی۔ وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ کے ممبران کی ا کثریت کو ایف اے ٹی ایف کے بارے میں معلومات نہیں تھیں۔ 6اکتوبر 2020ءکو سکیورٹی اینڈ ایکسچینجز کمیشن آف پاکستان (SECP)کے چیئرمین نے اعلان کیا کہ ان کے ادارے نے ایف اے ٹی ایف کی تمام ہدایت پر عمل درآمد مکمل کر لیا ہے۔
23اکتوبر 2020ءکو ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں تسلی کی گئی کہ پاکستان کی کارگردگی اطمینان بخش ہے کیونکہ اس نے 27نکات میں سے 21 نکات پر عمل درآمد کرلیا ہے۔لیکن اسے گرے لسٹ سے اس وقت تک نہیں نکالا جا سکتاجب تک مکمل 27نکات پر عمل درآمدنہیں کیا جاتا۔8جنوری 2020ءکو لاہور کی دہشت گردی کی عدالت نے لشکر طیبہ کے ذکی الرحمن لکھوی کو دہشت گردوںکی مالی معاونت ثابت ہونے پر 5 سا ل قید کی سزا دے دی گئی۔25 فروری 2021ءکو ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا۔ کیونکہ اس نے 27 میں سے 3 نکات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔25مارچ 2021 کو حکومت نے تمام پراپرٹی ڈیلز کے لئے ٹیکس رٹرنز بھرنا لازمی قرار دے دیا۔
22 اپریل 2022ءکو حکومت نے تمام متعلقہ اداروں کو منی لانڈرنگ او ر دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایت کر دی۔19 مئی 2021ءکو ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ روکنے کے لئے اسپیشل سکوارڈ بنانے کا اعلان کیا۔ 25 جون 2021ءکو ایف اے ٹی ایف نے اپنے ا جلاس میں 27 میں سے صرف ایک نکتہ پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ میںرکھنے کا اعلان کر دیا۔ 4جولائی 2021ءکو نیب NAB نے منی لانڈری روکنے کے لئے ایک سیل قائم کر دیا۔سولہ اگست 2021ءکو اسٹیٹ بینک کی ہدایت پر تمام بینکوںنے بڑے اور اہم اکاﺅنٹ ہولڈرز کے ڈیٹا بیس کو متعلقہ اداروں تک رسائی دے دی تاکہ ممکنہ منی لانڈری روکی جا سکے۔ 21 اکتوبر کو ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا۔ کیونکہ ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد میں کچھ کمی پائی گئی۔ البتہ پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا کہ پاکستان ایکشن پلان پر سنجیدگی سے عمل کررہا ہے۔ 4 مارچ 2022ءکو ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں تقریباً یہ فیصلہ ہونے والا تھا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے لیکن ہندوستان نے جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید کے خلاف حکومت کی طرف سے کاروائی نہ کرنے کا سوال اُٹھا دیا۔ چنانچہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رہنے دیا گیا۔8اپریل 2022ءکو پاکستان نے یہ اعتراض بھی ختم کر دیا اور حافظ سعید کو 33 سال کی قید سزا سنا دی۔ 14-17 جون تک جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ پاکستان نے ایکشن پلان کے تمام 34 نکات پر عمل درآمد کر لیا ہے۔ اس لئے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اَب صرف ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان جا کر اس بات کی تصدیق کرے گی کہ ایکشن پلان پر عمل درآمد میں کوئی سقم تو باقی نہ رہ گیا ہے۔ 17 جولائی کو پاکستان کو سفارتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم ستمبر میں پاکستان کا درہ کرے گی۔ پاکستان نے ٹیم کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے طور پر ایک اور اہم کام کیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ ہر بین الاقوامی ایئر پورٹ پر ایک کاﺅنٹر کھول دیں جہاں مسافروں سے اپنے ہمراہ سونا اور زیوارات ملک سے باہر لیجانے یا اندر لانے کی تفصیل حاصل کریں۔ 29اگست سے 2 ستمبر تک ایف اے ٹی ایف کی 15 ممبران پر مشتمل ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور تمام 34 نکات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا اور تسلی بخش قرار دیا۔ چنانچہ 21 اکتوبر 2022ءکو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا گیا۔