معروف صحافی ارشد شریف کی ناگہانی خبر کے بعد ہر شخص جہاں اس کااظہار افسوس کر رہا ہے اور وہاں یہ بھی پوچھ رہا ہے کہ آخر ارشد نیروبی کیا کرنے جا رہے تھے؟گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کا میڈیا ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہوسکا ۔ ایک گروپ خان صاحب کے ساتھ ہے اس کی ریٹنگ سوشل میڈیا پر بڑھ گئی اور وہ اہم بھی ہو گیا ۔ دوسرا حصہ حکومتی اور اتحادی پارٹیوں کے پاس چلا گیا اور تیسرا گروپ پاکستانی اداروں کے گرد گھومتا ہے اس کی سادہ سی وجہ پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی اور نئے چینل کی بھرمار سمجھی جارہی ہے۔ دنیا میں صحافیوں کا قتل و غارت کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ معاشی بحران کی شکائیتیں بھی میڈیا کرتا تھا اور روزی روٹی کی آواز بھی یہاں سے آتی تھی مگر اب تو جان کے لالے پڑ چکے ہیں۔ بگو وال میں تو ذیشان کو اس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ خود پر قاتلانہ حملے کی پولیس کو شکایت کر رہا تھا۔ قاتلوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ ہر صوبے میں قلم کاروں سے امتیازی سلوک روٹین کی بات نظر آتی ہے۔ آئیے اس کی وجوہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قتل کی ایک وجہ تو ہم خود ہیں۔جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کے پاس خبر آتی ہے تو کئی دوست خبر کو مارکیٹ کرنا شروع کر دیتا ہے یاد رکھیں وہ جب تک اپنے ادارے کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اکیلا نہیں رہتا ادارہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جہاں وہ ایک جگہ سے ہلا تو مسائل پیدا ہوئے۔ دوسری وجہ جانب داری ہے، کئی دوست خود کو پولیٹیکل پارٹی کا آلہ کار بنا کر انکے جلسوں میں بیانات دیتے ہیں وہ خود کوپولیٹکل پارٹی کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ یہاں کھلے عام پارٹیوں کا آلہ کار نظرآتے کا رواج ہے۔ تیسری وجہ اداروں کے خلاف منفی مہم جوئی ہے جس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک مشہور پروگرام کے اینکر پاکستان میں روپوش لوگوں کے متعلق کھلے عام اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے کئی بار وہ اس کی آڑ میں اداروں کو بدنام کرتے رہے۔ دنیا میں کچھ قلم کار دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطہ میں رہے ان سے معلومات شیئر کرتے اور لیتے جس سے ان کی زندگی میں خطرہ بڑھ جاتا۔ بہت سارے صحافی بارڈرز کے ایریا میں مارے گئے اور کچھ لاپتہ بھی ہوئے کچھ کو سبق سکھانے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ارشد شریف کا قتل کینیا میں ہوا اور اس وقت فائرنگ کی گئی جب انہوں نے ناکے پر گاڑی نہیں روکی ان کے ساتھ جو لوگ تھے ان کے بارے میں متضاد معلومات ہیں۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ ارشد شریف حکومت کے ایک سابق سیکیورٹی ایڈوائزر کے بہت قریب تھے اور شاید وہ بھی ارشد شریف کے ساتھ تھے۔ یا جہاں ارشد شریف جانے والے تھے وہاں موجود ہونگے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ارشد شریف بیرونی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایک سیاسی گروپ کے خلاف دستاویزی فلم بنانے کا معاہدہ کرنے والے تھے۔شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ارشد شریف نے ان سے اظہار کیا تھا کہ کچھ لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارشد شریف نے ان لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کیوں نہ کی جو ان کو دھمکیاں دے رہے تھے؟ اگر انہوں نے جانا تھا تو کسی ایمبیسی سے رجوع کرتے تو انہیںفوری ویزہ مل جاتا ؟ ابھی بہت سارے سوالوں کے جوابات سامنے آنے باقی ہیں ۔ حرف آخر صحافیوں کو اپنے کام میں مہارت کا مظاہرہ کر کے اپنی جان کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔ صحافی کسی بھی پولیٹیکل پارٹی یا کارپوریٹ انٹرسٹ کا طرف دارنہیں ہونا چاہیے۔ صحافیوں کی تنظیمیں اپنے اندر اتحاد پیدا کر کے صحافیوں کو اکٹھا کریں۔ حکومت اور اپوزیشن صحافیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو میڈیا بھی ان سے انصاف کرے گا اور ان کا پروگرام بھی عوام تک پہنچاپائے گا۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشد شریف کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے۔ آمین