نوازشریف کی واپسی' قومی سیاست تازہ ہوا کا جھونکا!!



بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
خیال تھا کہ 21 اکتوبر 2023ءکو 1959 دن بعد وطن واپسی اور پھراسی شام مینار پاکستان میں عدیم المثال اجتماع میں مسلم لیگ کے قائد اپنی تقریر میں وہ شعلہ بیانی اور جولانیاں لائیں گے جو سیاسی ٹکراو¿ اور انتقام کے سلسلے کو دراز کرنے کا پیغام دے گی۔ ہوسکتا ہے ان کا خطاب گوجرانولہ اور لندن کی( آخری ) پریس کانفرنس کی جھلک سے مرقع اور بھرپور ہو… حیرت انگیز طور پر 21 اکتوبر کی شام سابق وزیراعظم کے خطاب نے بدلے ہوئے منظر اور بدلے ہوئے نوازشریف کو پیش کیا۔”لیڈر ایسا ہی ہوتا ہے“ میاں صاحب نے معافی اور بدلہ سے توبہ کرکے وطن عزیز کے لیے جس کشادہ دلی کے ساتھ قومی ڈائیلاگ کا مڑدہ سنایا اس قومی پالیسی نے کئی تجزیہ نگاروں کو حیرت زدہ کر دیا۔ بین القوامی اخبارات' جرائد اور انٹرنیشنل میڈیا نے میاں صاحب کی واپسی' خیر مقدم اور ان کے” مدبرانہ خطاب“ کو جلی حروف میں نمایاں کوریج دی۔ برطانیہ اور امریکہ یہاں تک کے پڑوس ممالک کے اخبارات اور میڈیا نے خبروں میں ''پاکستانی قوم کو نیا نوازشریف مبارک'' جیسے منظر کو پیش کیا۔
 یادش بخیر… 10 ستمبر 2007ء کو سات برس بعد جلاوطنی کاٹ کر لندن سے اسلام آباد آنے والے نوازشریف کو ائیر پورٹ سے ہی دوسرے طیارے کے ذریے جبراً لوٹا دیا گیا تھا۔13 جولائی 2018ءکو میاں نوازشریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز کو احتساب عدالت نے لمبی قید کی سزائیں سنائیں۔زرا 11.2-2018کا وہ منظر بھی ذہن میں لائیں جب اسیر نوازشریف کو ان کی ہر دل عزیزاہلیہ بیگم کلثوم نواز کی موت کی جاں گسل اور روح شکن خبر سنائی۔ واقعی اللہ پاک نے اس مرد قلندر کو بڑا حوصلہ اور برداشت ود یعت کیا۔ حضرت واصف علی واصف کہتے ہیں ''انسان کی سب سے بڑی طاقت قوت برداشت ہے ” امام علی کا فرمان ہے “قوت برداشت مومن کی شان بڑھاتی ہے'' میاں صاحب کی تقریر میں کرب ،دکھ ،غم اور اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے غم کا اظہار بھی تھا۔جیل میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو ٹیلی فون کی سہولت نہ تھی مگر ان تمام غم و دکھ کے باوجود انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ انتقام لینا میرا مقصد نہیں ہے،اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں۔تلخ و ترش حالات کے باوجود پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے سفر کی بات کی،تمام ستونوں کو اکھٹے ملک کو آگے لے کر جانا ہوگا،آج کو بچانا ہوگا۔پاکستان کی اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔ 76 سالہ تاریخ میں پاکستان بد ترین حالات سے گذر رہا ہے،اقتصادی بدحالی ہے، بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان ہے،پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔بجلی،گیس ناصرف مہنگی بلکہ نایاب ہے،اگر سیاستدان مخلص ہیں تو آئینی اداروں کے ساتھ مل کر پہلے صرف ”میثاق پاکستان“کیلئے سرگرم ہو جائیں۔ تاریخ دیکھیں تو آج سے 38 سال قبل 1985 ءمیں ڈالر پندرہ روپے کا تھا،2007 ءمیں ساٹھ روپے کا ہوا۔2007 ءسے 2022 ءتک چودہ سال میں ڈالر تین سو کی حد عبور کرگیا کیوں؟،سوال تو بنتا ہے نا؟میاں نواز شریف نے بجلی بلوں کو موازنہ بھی کیا 2017 ء میں بل اگر بارہ سو تھا تو 2022 میں اٹھائیس ہزار کا ہوا، کیوں؟۔آج پاکستان کے بازاروں کو دیکھیں ویرانی چھا گئی ہے،کیوں؟۔کیا کوئی ایمانداری سے آئی پی پی (بجلی پیدا کرنے والے معاہدوں ) کو عام کریں گے؟،کس نے اور کیوں پاکستان دشمن شرائط پر معاہدے کیے؟پاکستان میں ہرادارے کی عزت ہونی چاہئے، قیام پاکستان اور استحکام پاکستان اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اکرمﷺ کامظہر ہے، فوج کا کردار بھی نمایاں ہے ان کی عزت ہر محب وطن پاکستانی کا فرض ہے۔میاں نواز شریف نے کہا کہ 2017 ءمیں روٹی صرف چار روپے کی تھی آج بیس روپے کی ہے۔ صرف تمام محب وطن اسٹیک ہولڈر جو آئین پاکستان اور ریاست کے ستون ہیں،صرف اس بات پر غور کریں کہ 1994 ءمیں جن بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (آئی پی پی )نے 51 ملین انوسٹ کیا تقریباً ہزاروں گنا منافع کما چکے ہیں،کیا 1994 ءمیں بجلی پیدا کرنے کے متبادل ذرائع نہ تھے۔اس کاجواب اور وضاحت قوم کو ملنی چاہیے…''میثاق پاکستان'' کیلئے میاں نواز شریف کی تجاویز کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
حرف آخر
میاں نواز شریف کی دلیر صاحب زادی نے مخالف سیاسی دور میں اپنے والد نواز شریف کا بیانہ آگے بڑھایا، ورکرز کو اکٹھا کیا اور قومی سیاست میں اپنا کردار جس خوش اسلوبی سے ادا کیا وہ لمحات شخصیات کی زندگی میں خال خال آتا۔ مریم نوازشریف کے انداز سیاست کو صرف ان کے محبان نے قوم قبول نہیں کیا بلکہ حیرت انگیز طور پر قوم نے انہیں قومی لیڈر کی حیثیت سے سپیسspeace) (دی۔ آج مسلم لیگ ن کی شان وحشمت اور لاہور کا تاریخی جلسہ مریم نواز کی ان کوششوں کا ثمر ہے جو وہ اپنے والد کی عدم موجودگی میں ادا کرتی رہیں۔ قوم امید رکھتی ہے کہ میاں نوازشریف پاکستان اور قوم کے لیے اپنے ”ثالثی ایجنڈے “ کی تکمیل میں سرگرم رہیں گے، یہی وقت کی آواز اور حالات کا تقاضا ہے۔ وطن عزیز کو آج جن معاشی اور اقتصادی حالات کا سامنا ہے ان چینلز سے نمٹنے کے لیے سب کو میدان عمل میں آنا پڑے گا احمد فراز یاد آگئے۔
ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی شمع جلاتے جاتے

ای پیپر دی نیشن