اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت رپورٹ) صدر عارف علوی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایوان صدر میں نہ ہوتا تو آج میں بھی جیل میں ہوتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی آج بھی میرے لیڈر ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس میں نے نہیں بھیجا تھا پی ایم ہا¶س سے آیا تھا۔ بعد میں سابق وزیراعظم نے بھی کہا تھا وہ ریفرنس بھیجنا نہیں چاہتے تھے۔ یقین نہیں کہ الیکشن جنوری کے آخر میں ہو جائیں گے۔ مارچ تک الیکشن نہیں ہوں گے۔ حج پر نہ گیا ہوتا تو الیکشن ایکٹ 2017 ءمیں ترمیم پر دستخط نہ کرتا۔ الیکشن ایکٹ 2017ءکی شق 57 ون میں ترمیم آئین کے خلاف ہے۔ صدر مملکت نے مزید کہا پارلیمانی نظام میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کر پائے۔ پاکستان بڑی مشکلات کے ساتھ جمہوریت کے نظام پر قائم ہے۔ آئین کہتا ہے اگلا صدر منتخب ہونے تک موجودہ صدر اپنی ذمہ داریاں جاری رکھے گا۔ الیکشن کمشن کو مشاورت کیلئے مدعو کیا اس نے جواب دیا کہ ضرورت ہی کوئی نہیں۔ پنجاب اور خیبر پی کے انتخابات کیلئے خط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پنجاب اور خیبر پی کے میں انتخابات کیلئے الیکشن کمشنر کو بلایا لیکن وہ نہیں آئے۔ پھر میں نے وزیر قانون کو بلایا تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ آپ کو یہ حق نہیں ہے۔ مردم شماری کے معاملات پر مسائل آ رہے تھے۔ پرنسپل سیکرٹری کو ہٹا کر لکھ دیا تھا کہ میں اپنے م¶قف پر قائم ہوں۔ میں نے کہا تھا کہ 6 نومبر یا اس سے پہلے الیکشن کرائے جائیں۔ ن لیگ ایک نئے بیانے کی تلاش میں ہے اور عوام نے انہیں بیانیہ تھما دیا ہے کہ سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے۔ سب لوگ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کر رہے ہیں۔ ملک کے مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہونا چاہئے۔ میں نے چیئرمن پی ٹی آئی کو مالی طور پر ایماندار پایا۔ حج پر گیا تو الیکشن ایکٹ کی ترمیم جاری ہو گئی۔ قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے اس پر دستخط کئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی محب وطن پاکستانی ہیں۔ میں ہمیشہ توڑ پھوڑ کے خلاف رہا ہوں۔ میں نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی۔ آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہئے۔ لوگوں کو عدالتوں پر بھروسہ ہے۔ چیف جسٹس سے قوم کو امید ہے۔ وہ قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ آصف زرداری کے پاکستان کھپے کے نعرے کو ہمیشہ سراہوں گا۔ ملک میں جمہوریت چل رہی ہے۔