عمران خان یو ٹرن کو اپنی خوبی بیان کرتے تھے اور جب وہ اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں تھے یا پھر وزیراعظم بننے کے بعد بھی بہت سے یو ٹرن لیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہمیشہ عمران خان کی طرف سے یوٹرن کی توقع رہتی تھی۔ ان کے بدلتے بیانات سے ہر روز ایک نئی بحث کا آغاز ہوتا تھا۔ سابق وزیراعظم تو یوٹرن کو کامیابی اور سمجھداری قرار دیتے رہے ہیں۔ اب وہ جیل جا چکے ہیں یوٹرن کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا حالیہ یوٹرن الیکشن کمشن بیانات کے حوالے سے ہے۔ وہ ماضی میں ایک ادارے کی حیثیت سے الیکشن کمشن کو اور اس آئینی ادارے کے چیئرمین کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ بعض اوقات تو سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن اب پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اب یہ کیس ختم کر دیا جائے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سابق وزیراعظم و پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وکیل شعیب شاہین نے توہین الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کیس میں ذاتی حیثیت میں یقین دہانی کراتے ہوئے استدعا کی ہے کہ "عمران خان اب الیکشن کمیشن کو کچھ نہیں کہیں گے لہٰذا توہین الیکشن کمیشن کیس ڈراپ کردیا جائے۔ تنقید کرنا ایک چیز ہے، میں ذاتی طور پر کہتا ہوں اس سے آگے اب وہ کچھ نہیں کہیں گے۔ اس پر ممبر کمیشن نے کہا کہ جائیں پہلے عمران خان سے لکھوا کر لائیں کہ وہ معذرت کرتے ہیں، اختلاف رائے حق ہے، گالی دینا حق نہیں۔ اس کو الیکشن کے بعد کیلئے فکس کر دیں، میں آپ کی دی گئی تجویز پر بات کروں گا۔"
بہت وقت گذرا ہے پی ٹی آئی قیادت نے ایسے وقت میں جب انہیں تحمل مزاجی کی ضرورت تھی انہوں نے غیر ضروری مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ کسی کو عزت نہیں پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کسی کی عزت کا خیال نہیں رکھا۔ ریاستی اداروں اور ان کے سربراہان کی کردار کشی کی جاتی رہی۔ اس وقت ان کا مقصد ہی کچھ اور تھا، وہ کچھ سننا ہی نہیں چاہتے تھے، بولنا اور ہر وقت بولتے رہنا ان کا محبوب مشغلہ تھا اور یہ سلسلہ رکتا ہی نہیں تھا۔ اس دوران وہ کسی کی سنتے ہی نہیں تھے اب اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ اب الفاظ واپس لینا چاہتے ہیں تو فوری طور پر کوئی سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔ اعتماد کا عالم یہ ہے کہ ان کے وکیل کو بھی یہ سننا پڑا ہے کہ جائیں اور ان سے لکھوا کر لائیں۔ اس سے زیادہ بداعتمادی اور کیا ہو گی۔ بہرحال یہ صورت حال سب کے لیے ایک سبق ہے کہ سیاسی مخالفین کو سیاسی مخالف ہی سمجھنا چاہیے۔ اداروں کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے راستے پر نہیں چلنا چاہیے۔ سرکاری خزانے کو ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی قیادت دوسروں پر انگلیاں اٹھانے اور الزامات عائد کرنے سے کبھی رکی نہیں لیکن خود قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
پی ٹی آئی کے دور میں سرکاری سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے بڑے پیمانے پر پراپیگنڈا کیے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کے بجٹ میں اس پراجیکٹ کی لاگت آٹھ سو ستر ملین روپے رکھی گئی تھی، سالانہ ترقیاتی پروگرام کی آڑ میں سوشل میڈیا ٹیموں کو مذموم بیانیہ پھیلانے سیاسی مقاصد، پراپیگنڈا مہم اور ڈس انفارمیشن کے لیے استعمال کیا گیا۔ سوشل میڈیا ٹیم میں شامل ملازمین کی تنخواہ پچیس ہزار سے چالیس ہزار روپے تک تھی۔ فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ "قوم نے دیکھاجس کو راہبر چنا وہ رہزن بن کرخزانے کا بے دریغ استعمال کرتا رہا، کے پی میں سوشل میڈیا سینٹر بنا کر پی ٹی آئی چیئرمین نے اے ڈی پی کے فنڈ کو استعمال کیا، ایک شخص کی خودپسندی کی ترویج کے لیے آٹھ سو ستر ملین روپے خرچ کیے گئے۔ تیس سے چالیس ہزار تنخواہ پر نوجوانوں کو پراپیگنڈا کرنے کے لیے ملازمت دی گئی، آٹھ سو سے زائد جعلی اکاو¿نٹس کے ذریعے ملک کا تشخص تباہ کرنے کی کوشش ہوتی رہی، سرکاری وسائل سے پی ٹی آئی کا جھوٹا بیانیہ پھیلایا گیا۔ ریاستی اداروں کو سوشل میڈیا پر جعلی اکاو¿نٹس سے نشانہ بنایا گیا۔"
یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ قوم جس بھی سیاسی رہنما کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لاتی ہے وہ بااختیار ہونے کے بعد ملک و قوم کے بجائے اپنی ذات کو سامنے رکھتا ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ سرکاری خزانے کو ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا جائے، کتنا بڑا ظلم ہے کہ جو پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ ریاست مخالف بیانیے اور کسی شخص کو ریاست سے بڑا بنانے کے جھوٹے بیانیے پر خرچ ہوتا رہا۔ بہرحال ایسے تمام کیسز کی روزانہ کی بنیاد پر انکوائری ہونی چاہیے، مقدمہ چلایا جائے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔
خبر یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دہائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے معاملے پر عالم اسلام میں قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ غزہ کی صورتحال پرخاموش رہنا اسرائیل کا ساتھ دینا ہے، حکمرانوں نے ابھی تک غزہ کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اسرائیل کا یکطرفہ ساتھ دینے کا اعلان امریکا کی کھلم کھلا دہشتگردی ہے۔ جماعت اسلامی نے اعلان کیا ہے کہ انتیس اکتوبر کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے باہر غزہ مارچ ہو گا۔ سراج الحق نے عوام سے اس مارچ میں بھرپور شرکت کی دعوت دی ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ غزہ میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور امت مسلمہ کا ردعمل جو ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے بہن بھائیوں پر بمباری ہو رہی ہے ان کا خون بہایا جا رہا ہے اور ہم واضح اور پر زور موقف اپنانے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے ہیں۔ اس خون کا حساب سب سے ہو گا، جو خاموش ہیں انہیں بھی حساب دینا ہو گا جو خون بہا رہے ہیں وہ بھی شکنجے میں آئیں گے۔ مظلوم فلسطینیوں کو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیا کلمہ گو ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟؟؟؟
غزہ پر اسرائیلی بمباری میں چھ ہزار سے زائد فلسطینی جن میں پچاس فیصد سے زائد خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں اور اس بمباری کو تین ہفتے نہیں ہوئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی بمباری سے 900 بچوں سمیت 1600 لاپتا افراد کی اطلاع ملی ہے یہ بھی خدشہ ہے کہ لاپتا افراد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور اگر خدانخواستہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد بھی جاں بحق ہو چکے ہیں تو شہداءکی تعداد کا اندازہ لگانا اور عالمی طاقتوں کی بے حسی پر ماتم کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔
آخر میں ستیہ پال آنند کا کلام
خزاں کو کیا پرواہ ہے
اکتوبر ہے
کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے
اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں
باہر سارے پیڑ
دریدہ پیلے یرقانی پتوں کے
مٹ میلے ملبوس میں لپٹے نصف برہنہ
باد خزاں سے الجھ رہے ہیں
حرف حرف پتوں کا ابجد
پت جھڑ کی بے رحم ہوا کو سونپ رہے ہیں
میں بھی الف سے چلتا چلتا
اب یائے معروف پہ پاو¿ں ٹکا کر بیٹھا
ایک قدم آگے مجہول کو دیکھ رہا ہوں
ننگے بچے دیمک چاٹے
عمر رسیدہ پیڑ بھی اپنا ابجد کھو کر
برف کا بوجھ نہیں سہہ پاتے گر جاتے ہیں،
اکتوبر سے چل کر میں بھی
اپنے ابجد کی قطبینی یہ کی یخ بستہ چوکھٹ پر
جوں ہی شکستہ پاو¿ں رکھوں گا گر جاو¿ں گا،
باد خزاں کو کیا پروا ہے
اس کو تو پیڑوں کو گرانا ہی آتا ہے!!