ایک روز پہلے فرانس نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اگلے روز اس کے صدر میکرون تل ابیب جا پہنچے، اسرائیل کو تھپکی دی اور نہ صرف جنگ جاری رکھنے کی تلقین کی (جنگ کہاں ہو رہی ہے، یکطرفہ آگ برسائی جا رہی ہے) بلکہ مطالبہ کیا یا تجویز دی کہ غزہ کے خلاف جنگ کیلئے ویسا ہی عالمی اتحاد بنایا جائے جیسا داعش کیخلاف بنایا گیا تھا۔ یعنی امریکہ روس برطانیہ فرانس جرمنی آسٹریلیا کینیڈا سمیت درجنوں مل کر ”غزہ“ کا مقابلہ کریں۔ یعنی جب تک فرانس میں تھے، انہیں ٹھیک اندازہ نہیں تھا کہ غزہ کتنا بڑا عفریت ہے، اسرائیل پہنچے تو پتہ چلا۔
داعش کیخلاف عالمی اتحاد میں عراق پر اور اس سے کہیں زیادہ شام پر بمباری کی گئی۔ داعش کے سینکڑوں لیکن اس النصرہ فرنٹ کے ہزاروں ارکان مار دئیے گئے جس کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ محض شام میں 3 فیصد لضیری قبیلے کی جابرانہ حکومت کیخلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ اس مہم میں النصرہ فرنٹ ختم ہو گیا، حلب جو شام کا سب سے بڑا شہر ہے واپس لضیری حکومت کو مل گیا اور دسیوں ہزار عام شہری ہلاک، لاکھوں زخمی اور کئی ملین شام کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے نتیجہ حتمی طور پر یہ نکلا کہ شام اسرائیل کیلئے محفوظ بن گیا۔ صدام کے خاتمے کے بعد عراق کو پہلے ہی ”اسرائیل فرینڈلی“ ملک بنایا جا چکا تھا۔ رہا مصر، وہ اسرائیلی فرینڈلی نہیں ہے، وہ اسرائیلی ”مقبوضہ“ مصر ہے۔
گزشتہ 30 گھنٹہ میں 12 سو فلسطینی بمباری سے مارے گئے جن میں 400 بچے تھے۔ ساتھ ہی اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ قتل عام کی موجودہ مہم 3 ماہ مزید جاری رہے گی۔ ہزار بارہ سو روز کے حساب سے تین مہینے بعد غزہ میں ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی قتل ہو چکے ہوں گے۔ 17 لاکھ پھر بھی بچ رہیں گے چنانچہ صدر میکرون کی یہ تجویز بالکل درست اور برحق ہے کہ اتنا بڑا معاملہ محض اسرائیلی حکومت پر مت چھوڑا جائے، داعش کے مقابلے والا عالمی اتحاد پھر سے قائم کیا جائے۔
____
نواز شریف کے مینار پاکستان والے جلسے کو ہوئے آج پانچواں دن ہے لیکن باقی ماندہ یا بچی کھچی پی ٹی آئی بدستور حاضرین کی گنتی میں مصروف ہے۔ پٹی پٹائی پارٹی کے گزشتہ روز تک حتمی اعداد و شمار یہ تھے کہ جلسے میں 40 ہزار افراد شریک تھے لیکن کپتان کے ذاتی تجزیہ نگار نے کل یہ تصحیح جاری کی ہے کہ 40 نہیں، محض /22 ہزار افراد تھے۔ یہ نظرثانی شدہ تخمینہ درست مان لیا جائے تو 2012 ئ والے کپتان کے تاریخ ساز جلسے میں شرکا کی تعداد گیارہ ہزار بنتی ہے۔ اور اسی فارمولے کے تحت ان گیارہ ہزار میں وہ چار ہزار بھی شامل تھے جن کو پاشا حضور نے حاضری رجسٹروں سمیت جلسہ گاہ میں ارسال کیا تھا۔ یہ چار ہزار نکال دئیے جائیں تو کپتان کے ذاتی تجزیہ و کالم نگار کے فارمولے کے مطابق کپتان کے اس جلسے میں سات ہزار عوام کے جم غفیر و کثیر نے شرکت کی تھی۔
بہرحال، جلسے کاایک ضمنی فائدہ تو یہ نکلا کہ پٹی پٹائی پارٹی جو کافی ہفتوں سے فارغ البال تھی، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی، اسے کام دھندہ مل گیا ہے اور وہ گنتی اور ازسر نو گنتی کے شغلِ عظیم میں مصروف ہو گئی ہے۔ بیکار مباش نہ بیٹھ کچھ کیا کر، پاجامہ ہی ادھیڑ کر سیا کر!
______
اگر کسی کی پیش گوئی سو فیصد درست نکلے تو اسے قلیل المیعاد پیمانے پر ہی سہی، ماننے میں کوئی حرج نہیں۔
کل سے سوشل میڈیا پر خان صاحب کی ایک وڈیو وائرل ہے جو آج کی نہیں، کئی مہینے پہلے کی ہے، غالباً وزیر آباد لانگ مارچ سے کچھ عرصہ پہلے کی۔ اس میں خان صاحب کچھ یوں فرما رہے ہیں کہ ”اب جو واردات ہم کرنے جا رہے ہیں وہ ہماری آخری واردات ہو گی اور فیصلہ کن ہو گی۔
واردات کے لفظ پر تقریر میں ”انورٹڈ کا ماز“ تو لگائے نہیں جا سکتے سو خان صاحب نے نہیں لگائے۔ بظاہر انہوں نے ”جہاد آزادی“ کا ترجمہ واردات سے کیا اور ان کا اشارہ جس واردات کی طرف تھا وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ تھا جو بدقسمتی سے وزیر آباد آ کر ٹھاہ کا نشانہ بن گیا۔
خان صاحب کی یہ ”بشارت“ سو فیصد درست نکلی۔ واردات آخری ثابت ہوئی اور فیصلہ کن بھی۔ اس کے بعد خاں صاحب کوئی واردات نہیں کر سکے، کرنے کی کوشش کی تو ناکام رہے اور یہ ناکامی تقدیر نے محض اس لئے دلوائی کہ ”بشارت“ کی صحت پر اثر نہ پڑے۔ سب سے بڑی کوشش 9 مئی کی تھی، وہ نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ ایسی گلے پڑی کہ 90 فیصد پارٹی نے ”یوٹرن“ لیا اور ترین فارمز کی ترکاری بھاجی میں جا شامل ہوئے، باقی دس فیصد ”اوٹرن“ بن گئی یعنی تب سے دائرے میں گھومے جا رہی ہے۔
_____
خان صاحب کو ملنے والی بشارت تو ٹھیک نکلی لیکن ان کے دامن کے خوشہ چین روحونیاتی بزرگوں کی جملہ بشارتیں ایمان افروز حد تک غلط ثابت ہوئی ہیں۔ پرانی بشارتوں کو چھوڑئیے، اس سال کے دوسرے تیسرے مہینے سے شروع ہونے والی چند ایک بلکہ ایک دو بشارتوں ہی کو لے لیجئے۔ فروری مارچ میں انہوں نے فرمایا کہ اپریل میں پاکستان تباہ ہو جائے گا، مدائن صالح کے کھنڈرات میں تبدیل ہو جائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ تباہی سے نہ صرف بچ گیا بلکہ سنبھلنے کے آثار نمودار ہو گئے۔ بشارت کے ”پیراگراف“ میں یہ اطلاع بھی شامل تھی کہ گندم کی آدھی کٹائی ہو چکی ہوگی کہ تباہی کا صور پ±ھک جائے گا اور ایسا عذاب الٰہی نازل ہو گا جو ناقابل واپسی ہو گا۔
دوسری بشارت یہ دی گئی کہ ستمبر میں بھارت پاکستان پر حملہ کر دے گا اور خان صاحب کی حکومت ختم کرنے کی پاداش میں آسمانی طاقتیں پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گی۔ ستمبر خیر سے گزر گیا، اکتوبر گزرنے والا ہے۔ جنگ ہونے کا کوئی خدشہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان نے بڑی مار والے ایک اور غوری میزائل کا تجربہ کر کے ایسے کسی خدشے کو اور دور دھکیل دیا ہے۔
یہ روحونیاتی بزرگ عرفان کی مے پیتے ہیں، ایسا ان کے میڈیائی ترجمان بتاتے ہیں، عرفان کی مے پینا اچھی بات ہے، بدستور پئیں، جگ جگ پئیں لیکن ازراہ خیر خواہی مشورہ ہے کہ مے کا برانڈ بدل لیں، شاید کچھ افاقہ ہو۔ برانڈ بدلتے ہوئے محترم گنڈاپور (اسلامی شہد والے) سے مشورہ لینا مفید رہے گا۔
_____
حکومت نے پٹرول کی 140 روپے لٹر قیمت بڑھا کر 40 روپے لٹر کم کر دی پھر اس پر داد کے ڈونگرے بھی ”برسوائے“۔ اب گیس کی قیمت میں 193 فیصد اضافہ کر دیا یعنی قیمت تین گنا کر دی جس کا بل پچھلی سردیوں میں 5 ہزار تھا، اس سال 15 ہزار آئے گا۔
لوگ مطالبہ کر رہے ہیں یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ غلط بات۔ مطالبہ وہ کیا جانا چاہیے جو پورا ہو سکے۔ مثلاً ایک قبول صورت مطالبہ یہ ہو سکتا ہے کہ سرکاری تیل کی قیمتوں میں 40 روپے کی جو عنایت کی گئی تھی، ازراہ عنایت وہ بھی واپس لے لی جائے۔ بہت عنایت ہو گی۔
_____
کسی نے سوال کیا کہ نواز شریف کی واپسی اور ان کے استقبال سے متعلق بہت سے احباب نے جو اندازے قائم اور نشر کئے، وہ سب کے سب غلط نکلے۔ اب یہ احباب کیا کر رہے ہیں۔
عرض ہے کہ یہ احباب اب نئے غلط اندازوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔
پی ٹی آئی کی نئی مصروفیت
Oct 26, 2023