اینک پاول کی متعصبانہ سوچ

متعدد بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ وطن عزیز میں رہتے ہوئے کالم نویسی کے جوہر دکھانا اس لئے بھی زیادہ آسان ہے کہ موضوع کے انتخاب میں کسی قدغن سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ موضوع اگر نہ بھی دستیاب ہو تو ”ہماری قومی سیاست“ کا محل وقوع اور محور اتنا وسیع و عرض ہے کہ کسی بھی منجھے ہوئے کالم نویس کیلئے اس میں سے موضوع ڈھونڈ نکالنا بائیں ہاتھ کا کمال ہے۔ مگر میرا معاملہ یہاں قطعی مختلف ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی عدم استحکام ایسے مسائل سے بلاشبہ دوچار اور قوم آئین و قانون کی بالادستی پر اٹھنے والے تحفظات کا شکار ہے۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ کروڑوں قربانیوں سے حاصل کئے وطن کی سالمیت و استحکام کا جہاں تک ممکن ہو سکے‘ درست دفاع کروںاور یہاں پروان چڑھنے والی نئی برطانوی پاکستانی نسل کی خواہشات اور انکی فکرو نظر میں گم ہو کر انکے جذبات و احساسات کا بھی احترام کرنا پڑتا ہے تاکہ انگلش سوسائٹی میں دن کے 10 گھنٹے گزارنے والے بچوں تک انکے ”گرینڈپا“ اور ”گرینڈما“ کے وطن پاکستان کے بارے میں عالمی یا برطانوی میڈیا میں جب کوئی منفی اور غیرمصدقہ خبر پہنچے تو والدین انکی درست انداز میں رہنمائی کر سکیں۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں حکمران کنزرویٹو پارٹی کی مانچسٹر میں منعقدہ سالانہ کانفرنس میں جس میں برطانوی وزیراعظم رشی سنک‘ وزراء‘ برطانوی ارکان پارلیمنٹ‘ ضلعی ٹوری اراکین و عہدیداران‘ کونسلرز‘ میئرز اور پارٹی ورکروں کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔ ایشیائی امور‘ نسلی تعصب‘ نسلی منافرت اور کنزرویٹو پارٹی کی بعض پالیسیوں پر وزیراعظم کی موجودگی میں بھرپور تنقید کی گئی۔ پارٹی کے ایک سینئر ترین 65 سالہ رکن مسٹر بورف جو 1979ءسے 2023ءکے دوران بوجہ مجبوری محض ایک سالانہ کانفرنس سے غیرحاضر رہے‘ بھارتی نژاد وزیر داخلہ ”سوئیلا بیرورمین“ کی کارکردگی پر کچھ زیادہ ہی برہم نظر آئے۔ انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے وزیر خارجہ بیرورمین کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ اپنی زبان کو Moderate Tone میں استعمال کریں۔ بعدازاں ایل بی سی پر سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کے بارے میں ہوم سیکرٹری بیرورمین کے دیئے حالیہ بیانات اور برطانیہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے حوالے سے استعمال کئے لفظ Hurrican of mass migration کے بجائے کنزرویٹو پارٹی کو اپنی اصلی اور اہم قومی پالیسیوں پر توجہ دینا چاہیے تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل برطانوی قوم کو ملٹی کلچر معاشرے کی حقیقی پہچان ہو سکے۔ 
مسٹر بورف کو ہوم سیکرٹری سوئیلا بیرورمین کیخلاف یہ ریمارکس دینے کی نوبت اس لئے آئی کہ برطانیہ میں شدت سے بڑھتی تارکین وطن کی تعداد کے بارے میں ہوم سیکرٹری کے چند ہفتے قبل دیئے اس بیان نے کہ برطانیہ میں نقل مکانی کرنے والے افراد کا ”طوفان بادوباراں“ برپا ہو چکا ہے، سیاسی حلقوں کو حیرانگی سے دوچار کر دیا۔کنزرویٹو پارٹی جسے ٹوری پارٹی بھی کہتے ہیں‘ کی پالیسیوں پر ایسی تنقید پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی‘ ماضی میں بھی تارکین وطن اور نسلی تعصب کے حوالے سے اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ آج سے پچاس برس قبل ماضی کے رکن پارلیمنٹ‘ نسلی تعصب اور نسلی منافرت پر مبنی تقاریر سے شہرت حاصل کرنے والے ممتاز برطانوی سیاست دان ”آنجہانی اینک پاول“ نے، جنہوں نے 1968ءمیں برطانوی ایشیائیوں اور بالخصوص برطانوی پاکستانیوں کیخلاف اپنی مہم کا مرتے دم تک سلسلہ جاری رکھا‘ River of Blood پر نسلی تعصب پر مبنی ایسی تقاریر کیں جن کا حوالہ آج بھی دیا جاتا ہے۔ آپ اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ 1980ءکی ایک سرد شام کو ویسٹ منسٹر کے باہر آنجہانی اینک پاول سے میری ایک ڈرامائی ملاقات ہوئی ۔ مختصر تعارف کے بعد میں نے انہیں ”خون کے دریا“ اور رنگدار افراد کو واپس انکے آبائی ممالک بھیجنے کے انکے بیان پر پوچھا کہ وہ مسیحی روایات کے تابع ہوتے ہوئے بھی اس طرح کی نسلی متعصبانہ سوچ کیوں رکھتے ہیں؟ وہ مسکرائے اور پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’دلی مسرت ہوئی کہ آپ نے بغیر لگی لپٹی یہ سوال پوچھا۔ میں تسلیم کرتا ہوں نے میں نے رنگدار افراد اور بالخصوص برطانوی پاکستانیوں کے مستقبل کے حوالے سے ”ریور آف بلڈ“ کا متعدد بار ذکر کیا ہے۔ مگر پہلی بات تو یہ کہ میں منافقت سے نفرت کرتا ہوں اس لئے ایشیائی حلقہ میں ہوتے ہوئے بھی وہ بات کرتا ہوں جو سامنے نظر آرہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایشیائیوں‘ رنگدار افراد اور پاکستانیوں کی برطانیہ میں تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انگلستان آنے کا مقصد خوشحالی کا حصول تھا جو پورا ہو چکا۔ اب انہیں اپنے وطن واپس جانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ مگر برطانیہ کو مزید ترقی سے ہمکنار کرنے کیلئے ایشیائیوں کی شب و روز محنت اور برطانیہ کو اپنا دوسرا وطن تصور کرنے کے جذبہ کی قیمت کون ادا کریگا؟ میں نے پاول کو جواب دیا۔ وہ جلدی میں تھے‘ مسکرائے‘ معذرت کی اور جواب آئندہ کہتے ہوئے اجازت لی اور ٹرین سٹیشن کی جانب روانہ ہو گئے۔ کئی برسوں بعد اب وزیر داخلہ بیرورمین نے تارکین وطن کے حوالے سے ”مائیگریشن کے طوفان بادوباراں“ کا ذکر کیا تو مجھے آنجہانی اینک پاول سے کی ملاقات یاد آگئی۔ برطانیہ اب بلاشبہ رنگدار اور ایشیائیوں کا وطن ہے اس لئے بیرورمین سے مجھے کہنا ہے کہ آپ وزیر داخلہ اور اور رشی سنک ہمارے وزیراعظم ہیں۔

ای پیپر دی نیشن