73 سالوں سے جو ظلم و ستم کشمیری برداشت کر رہے ہیں اس کی بنیاد اس 27 اکتوبر کو رکھی گئی جب بھارتی فوج کے منحوس قدم وادی کشمیر مقدس دھرتی پر پڑے۔ اس دن سے لے کر آج تک کشمیریوں نے اس دن کو بطور یوم سیاہ منا کر بھارت سے نفرت اور بھارتی الحاق کے جھوٹے دعوے کو مسترد کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔اس وقت یوم سیاہ منایا جا رہا ہے جب بھارت نے اس الحاق کے ڈھونگ کا پردہ خود چاک کر کے پوری ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہے۔ اس نام نہاد الحاق کے تحت مقبوضہ ریاست کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت جو خصوصی مراعات اور حیثیت حاصل تھی اب وہ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور ریاست کو لداخ سے علیحدہ کر کے بھارت کے صوبے کا درجہ دیدیا گیا جس پر کشمیریوں کے احتجاج کے خوف سے وہاں مکمل کریک ڈاو¿ن جاری ہے۔ 9 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ وادی کے چپے چھپے پر تعینات ہیں۔ مگر بھارت کی مودی سرکار نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہہ رہی ہے کہ الحاق کا چولہ ا±تار کر ہم نے کشمیریوں کو بھارتیوں کی طرح مکمل آزادی دے دی ہے اگر یہی ہے وہ آزادی تو کشمیری 73 برسوں سے اس آزادی پر نفرین بھیجتے رہے تھے آج بھی بھیج رہے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے تقسیم ہند کے اعلان کے بعد یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی ریاست کی80 فیصد آبادی مسلم ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ الحاق میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ حالانکہ وہ حکومت پاکستان سے معاہدہ کر چکا تھا۔ جس کی قائداعظم نے منظوری بھی دی تھی۔ اسی لیے 14 اگست کو ریاست کی سرکاری عمارتوں پر پاکستان کا پرچم لہرا کر یوم آزادی منایا گیا۔ مہاراجہ کی خواہش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت لے کر بہترین سودے بازی کر سکے، اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ سمیٹ سکے۔ جس کی ایک شکل اسے مستقل مہاراجہ رہنا دیا جانا بھی تھا۔ مگر یہ بات ریاست کے مسلم عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ اگست میں پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں۔ اس کے ٹھیک دو ماہ بعد مہاراجہ کے تاخیری حربوں کے سبب گلگت، بلتستان، پونچھ اور ارد گرد کے علاقوں میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف عوام نے بغاوت کر دی اور مہاراجہ کی فوج کو پے در پے شکست دے کر ان علاقوں سے نکال دیا۔ جس پر بھارت نے نہایت مکاری سے سردار پٹیل اور شیخ عبداللہ کو ساتھ ملا کر مہاراجہ کو پھنسانے کا منصوبہ بنایا اور شیشے میں اتار کر اس کی من مرضی شرائط پر بھارت سے الحاق کی راہ دکھائی۔ ہنوز یہ بات بھی مصدقہ نہیں کہ آیا مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق نامہ پر دستخط کئے یا نہیں۔ کیونکہ ان کا وزیراعظم جو پنڈت تھا عوامی جذبات اور جغرافیائی خدوخال کو مدنظر رکھتے پاکستان کے ساتھ الحاق پر زور دے رہا تھا۔ کئی غیرملکی مورخ اس الحاق کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔
ادھر موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کامیابیوں کے بعد پاکستان کے قبائلی بھی کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے نکل پڑے تو مہاراجہ گھبرا کر سرینگر سے مال و دولت اور سازوسامان سمیٹ کر جموں منتقل ہوگیا جہاں کانگریسی رہنماﺅں نے اسے قبائلیوں کے حملے کے خوف سے ڈرا دھمکا کر اتنا خوفزدہ کر دیا کہ مہاراجہ بھارت سے الحاق پر تیار ہوگیا۔ مگر آج بھی ان کے فرزند ڈاکٹر کرن سنگھ بھارت کی اسمبلی میں بیٹھ کر کھلم کھلا کہتے ہیں کہ مہاراجہ نے دباﺅ میں آکر مشروط الحاق کو تسلیم کیا۔ اس الحاق کی آڑ میں بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کے اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہو۔ چنانچہ 27 اکتوبر1947ءکو فوجی طیاروں کے ذریعے اپنی فوج سرینگر میں اتاری اور کشمیری و قبائلی مجاہدین کی یلغار کے آگے فوجی دیوار کھڑی کرکے ان کی پیش قدمی روک دی۔ اس وقت تک مجاہدین بارہ مولا کے قریب پہنچ چکے تھے۔ بدقسمتی سے یہاں قبائلی مجاہدین مال غنیمت کی لوٹ مار میں مصروف ہوگئے۔ ان کے ہاتھوں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے مقامی آبادی خوفزدہ ہوگئی۔ یوں بھی بھارتی مسلح فوجی طاقت کے ساتھ سادہ باڑے میں بنی پرانی رائفلوں کا مقابلہ کب تک جاری رہتا۔ بھارتی فضائیہ کے حملے ان سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے اور مجاہدین کی پیش قدمی رک گئی اور وہ بارہ مولا سے اوڑی واپس لوٹ آئے۔ اس وقت اگر انگریز جنرل نے اپنے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر کشمیر میں فوج بھجوانے کا حکم تسلیم کیا ہوتا تو آج کشمیر کی کہانی کچھ اور ہوتی۔73 برسوں میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے دے کر بھارت کی غلامی سے آزادی کی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں خود اقوام متحدہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حق خودارادیت دینے کی قرارداد منظور کر چکا ہے مگر اس پر عمل میں بھارت کا انکار رکاوٹ بنا ہوا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھارت پر دباو¿ ڈالیں اس سے اپنی قرارداد پر عمل کرائیں کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرانے کے اپنے وعدے پر عمل کرے تاکہ یہ پرانا مسئلہ حل ہو۔ اس عمل میں پاکستان کی بھرپور کوشش کے باوجود اسلامی ممالک کا عمل افسوسناک حد تک منفی ہے اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم سے یہ ممالک صرف بھارت کو تجارتی و سفارتی بائیکاٹ کی دھمکی ہی دے دیں تو بھارت گھٹنے ٹیک سکتا ہے مگر آج 73 برس گزرنے کے باوجود مسلم ممالک تجارتی مفادات کی وجہ سے کشمیر کو مسلم ا±مہ کا مسئلہ نہیں بھارت کا اندرونی مسئلہ کہہ کر حقائق سے منہ چُرا رہے ہیں۔ اس کے برعکس مغربی ممالک کھل کر بھارت سے مذاکرات یا ثالثی کی بات کر رہے ہیں۔ امریکہ، چین، روس، برطانیہ ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں مگر بھارت نہیں مان رہا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ یہ مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتا اس لیے اقوام متحدہ ازخود اس مسئلہ پر سخت ایکشن لے تاکہ کشمیریوں کی نسل کشی روکی جا سکے ورنہ خطرہ ہے کہ دو ایٹمی ممالک کہیں اس مسئلہ کی وجہ سے جنگ کی حالت تک نہ پہنچ جائیں۔جو صرف برصغیر یا جنوبی ایشیا ہی نہیں عالمی برادری کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ دنیا کا امن اور کروڑوں انسانوں کا مستقبل تباہ ہو سکتا ہے۔