سپریم کورٹ کے فیصلے پر پاکستان بن کر سوچنا ہوگا 

Oct 26, 2023

فرحت عباس شاہ

 سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں سنے جائیں گے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا۔ پاکستان دشمن قوتوں کو ایک دفعہ پھر خوش ہونے کا موقع مل گیا۔ ہوسکتا ہے میری اس بات سے بہت سارے لوگوں کو صدمہ پہنچے جو یہ سوچتے ہیں کہ اس سے اچھا فیصلہ تو کبھی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نہیں آیا۔ ان کی بات بھی درست ہے جب بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ آیا تھا تو اس وقت بھی بہت سارے لوگ اسے تاریخی فیصلہ قرار دے رہے تھے۔ ابھی دور نہ جائیں پچھلے دو سالوں کے فیصلے اٹھا کر دیکھ لیں عمران خان کو سزا کے فیصلے سے لیکر نوازشریف کے کیسز کے خاتمے اور اسحاق ڈار کے بری ہونے کے فیصلے تک تمام ہی فیصلے انصاف کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 
 لیکن اگر معزز عدالت کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے کہ جس کسی نے بھی 9 مئی کے واقعات کا منصوبہ بنایا تھا اس فیصلے سے کیا اسے مزید تقویت نہیں ملی ہوگی کہ اگر کڑی سزا کا عمل وقوع پذیر نہ ہو سکا تو ایسے واقعات کا بار بار ہونا ممکن بنایا جا سکے گا۔ دوسرا اور ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ جب تک کوئی عدالت آئین و انصاف کی رٹ کو بحال رکھنے ہی میں کامیاب نہ ہو پا رہی ہو اور نوے دن کی آئینی مدت میں ہونے والے انتخابات ججز کے باہمی اختلافات کی نذر ہوچکے ہوں ، جہاں نوازشریف اور عمران خان کے حوالے سے کیے گئے فیصلے پکار پکار کر کسی کی خواہش بلکہ حکم کی بجا آوری کا تاثر دے رہے ہوں وہاں اس ایک فیصلے پر لڈیاں ڈالنے سے پہلے سوچنا پڑے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ 
 یقیناً ہر فیصلے کی طرح یہ فیصلہ بھی معزز عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق اور پوری نیک نیتی سے کیا ہے لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ فیصلہ ایک پاکستانی شہری اور صحافت و سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر استحکام ِ پاکستان اوربقاءپاکستان کی روح کے منافی لگ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پاکستان کے حوالے سے گلوبل ڈیپ سٹیٹ اسٹیبلشمینٹ کا رویہ دیکھا جائے تو یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ وہ پاکستان کو کمزور رکھنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ کیونکہ خطے میں چائینہ کے سامنے بھارت کا تھریٹ وہ ہر حال میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں بھارت کی سب سے بڑی خواہش اور مطالبہ ہی یہی رہا ہے کہ اس کی پاکستان سے جان چھڑوائی جائے اور پاکستان سے بھارت کی جان اسی صورت میں چھوٹ سکتی ہے کہ افواج پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ ملک کے سر ا±ٹھا کر جینے کی گنجائش ہی نہ رہے۔ کسی بھی ملک کی فوج اسلحے کی کمی اور عسکری مہارت میں کمی کی وجہ سے اتنی کمزور نہیں ہوتی جتنی عوامی حمایت کھو بیٹھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پچھلے دو سالوں سے مسلسل بپا ہونے والے حالات و واقعات کے نتیجے کو طور پر تین طرح کے نتائج ہمارے سامنے آئیں۔ نمبر ایک ملک کمزور ہوا ہے ، نمبر دو عوام تکلیف کا شکار ہوئیں اور نمبر تین فوج مخالف خیالات و جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور ان تمام نامساعد حالات میں حیرت کی بات یہ ہے کہ پے درپے ہونے والے عدالتی فیصلوں میں ایک بھی ایسا فیصلہ پیش نہیں کیا جاسکتا کہ جس سے ثابت ہو کہ اس کے ہونے سے عوام کے عدالتوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ ہمیشہ کسی جرنیل یا ڈکٹیٹر کے خلاف فیصلہ نہ کر پانے والی عدالت نے میرے وطن کے شہداء ، میرے وطن کی حفاظتی تنصیبات اور میرے غازیوں کے جذبہءشہادت کے خلاف فیصلہ دیا ہے کیونکہ یہ وہی عدالتیں ہیں جن کے بارے میں پولیس ہی کا کہنا ہے کہ ہم مجرموں کو پکڑ کر لے آتے ہیں اور عدالتیں انہیں چھوڑ دیتی ہیں تو ہم کیا کریں۔ دہشت گردی کے مقدمات میں کئی مقدمات سننے سے ججز کا انکار اور دہشت گردوں کی رہائی کے واقعات بھی سب کے سامنے ہیں۔ اب 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو انہی عدالتوں اور اسی عدالتی نظام کے سپرد کردیا گیا ہے جو پہلے کسی کو مجرم قرار دے کر سزا دیتا ہے پھر کچھ عرصہ بعد سب کچھ معاف کرکے انہیں واپس بلا کر معصوم قرار دے دیتا ہے۔ اس سے زیادہ اہم تھا کہ عدالت 90 دن میں الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد کروا کے اپنے آزاد اور خودمختار ہونے کا ثبوت دیتی۔ پہلے عوام کو انصاف نہ ملا ، اب شہداء کے ورثاءکو زد میں لایا گیا ہے۔ میرے نزدیک 9 مئی کے واقعات پاکستان پر حملہ تھے جن کی انکوائری میں کمزوری اور غفلت کے ساتھ ساتھ فیصلوں میں نرمی سے یہ واقعات دوبارہ ہونگے اور پھر بار بار ہونگے تاکہ ہمارے پاس نہ جذبہ شہادت باقی رہے نہ حب الوطنی اور ہم اپنا رہا سہا قومی نظریاتی اثاثہ بھی گنوا بیٹھیں۔ آپ ایک لمحے کے لیے پوری دنیا کو غلام بنا کر رکھنے کے لیے سرگرم بین الاقوامی طاقتوں کے طریقہ ء کار کا جائزہ لیں تو آپ کو ان کی طرف سے کی گئیں بہت ساری وارداتوں میں ایک سا پیٹرن نظر آئے گا۔ مثال کے طور پر گستاخی ِ رسالت کا بار بار ہونا اور دوسری طرف گستاخی کرنے والوں کو سزاﺅں کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کی مخالفت کرنا اور پھر پاکستان سے ان کو باہر نکال کے سیٹل کرنا۔ یہ سب صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہمارے دلوں سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقدس کم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایمان کمزور ہو تو مسلمان بھی کمزور ہوجائے۔ میرے نزدیک یہی کچھ ہمارے ساتھ 9 مئی کے واقعات سے لیکر اسے فوجی عدالتوں سے باہر رکھنے کے فیصلے تک ہوا ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد ، سامنے والے بھی اور ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے بھی اگر قرار واقعی سزا سے بچ گئے تو ایسا پھر ہوگا اور بار بار ہوگا۔ اب ایسا وقت نہیں کہ ہم رائے عامہ ، اسٹیبلشمینٹ یا سیاسی پارٹی بن کر سوچیں۔ اگر پاکستان بن کر نہ سوچا گیا تو پھر کسی بھی خوفناک انجام تک پہنچنے کے لیے ذہن بنا لیں۔

مزیدخبریں