چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ فلسطین کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنا زیادتی اور نادانی ہے۔ پاکستان فلسطینیوں کے اصولی مو¿قف کی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں فلسطین کے سفیر احمد جواد سے ملاقات کے دوران اظہارخیال کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کے جبری انخلاءکو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور غزہ میں جاری جنگ میں فلسطینیوں کے جانی نقصان پر اظہارتعزیت کیا۔ اس حوالے سے آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق جنرل سید عاصم منیر نے اسرائیلی فوج کی جانب سے معصوم شہریوں کے بے دریغ قتل‘ سکولوں‘ یونیورسٹیوں‘ امدادی کارکنوں اور ہسپتالوں پر حملوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ فلسطین پر غیرقانونی قبضے کے خاتمہ کیلئے فلسطینی مو¿قف کی حمایت جاری رکھیں گے۔ عالمی برادری‘ اسرائیلی فوج کے جاری مظالم پر اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو روکے۔ آرمی چیف نے باور کرایا کہ اسرائیل کی خودغرضی اور تنگ نظری کے تحت فلسطینیوں پر جبر کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی فوج کے مظالم انسانیت اور شہری اقدار کی خلاف ورزی کے عکاس ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں بالخصوص خواتین اور بچوں کی بڑھتی شہادتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور جنگ بندی کا تقاضا کیا ہے۔ حماس اسرائیل جنگ کے حوالے سے منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ غزہ میں امداد کی رسائی کیلئے جنگ بندی پر غور ہونا چاہئے۔ غزہ میں امداد کی فراہمی کیلئے ہم اقوام متحدہ‘ مصر اور اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ ان کے بقول دہشت گردی کوشکست دینا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ حماس‘ اسرائیل جنگ کے مضمرات کا جائزہ لینے کیلئے آج بروز جمعرات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے‘ تاہم امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور اقوام متحدہ کے رکن دوسرے یورپی ممالک کی جانب سے غاصب اسرائیل کی کھلی حمایت اور جنگ میں اسے کمک فراہم کرنے کی بنیاد پر اس نمائندہ عالمی ادارے سے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحانہ ہاتھ رکوانے کیلئے کسی مو¿ثر کردار کی کم ہی توقع ہے۔
رواں ماہ اکتوبر کے پہلے ہفتے کے روز فلسطینیوں کی نمائند تنظیم حماس نے اسرائیل سے فلسطین کے مقبوضہ علاقے چھڑوانے کیلئے ایک بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا اور اسرائیل کے زیرقبضہ علاقوں کی جانب بیک وقت پانچ ہزار سے زیادہ میزائل داغے جس سے اسرائیل ہی نہیں‘ اس کے حامی امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے بھی ششد رہ گئے۔ اس حملے میں درجنوں اسرائیلی فوجیوں سمیت اڑھائی تین سو اسرائیلی باشندے ہلاک ہوئے جبکہ حماس نے اسرائیلی علاقوں میں گھس کر ایک سو سے زائد اسرائیلی اہم باشندے یرغمال بھی بنائے جنہیں وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ حماس کیلئے تو یقینا یہ حق و باطل کا معرکہ تھا اور وہ اسرائیلی غاصبانہ قبضہ چھڑوانے کیلئے کشتیاں جلا کر میدان عمل میں اترے تھے جبکہ اس حملے کے بعد امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہو گیا اور اس کی حربی معاونت کیلئے اپنا جنگی بحری بیڑہ بھی اسرائیل روانہ کر دیا۔ صرف اس پر ہی اکتفا نہ کیا گیا بلکہ امریکی صدر بائیڈن اسرائیلی فوجوں کی حوصلہ افزائی کیلئے خود اسرائیل پہنچ گئے جن کے پیچھے پیچھے برطانوی وزیراعظم اور اب فرانس کے صدر بھی اسرائیل جا پہنچے ہیں اور فلسطینی حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیکر ان کے خاتمے کیلئے اسرائیل کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ساری اتحادی فوجیں یکسو ہوکر درحقیقت مسلم ا±مہ کا اتحاد توڑنے کیلئے سرگرم ہوئی ہیں اور غزہ میں فلسطینیوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا کر مسلم دنیا کے خلاف اپنی کامیابیوں کا جشن منا رہی ہیں۔ اگر مسلم دنیا کے دو تین ممالک ہی زبانی جمع خرچ سے کام لینے کے بجائے عملی طورپر حماس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور اسے ایسی ہی حربی امداد فراہم کرتے جیسے امریکہ نے پہلے روز ہی اپنا جنگی بحری بیڑہ بھجوا کر اسرائیل کی معاونت کی، توکوئی وجہ نہیں تھی کہ اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں پر مزید چڑھائی کرنے اور انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹنے اور اسی طرح غزہ کو فضائی حملوں کے ذریعے کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا موقع ملتا جبکہ فلسطینیوں کے ساتھ ایک دو مسلم ممالک کے عملی طورپر کھڑے ہونے سے اسرائیل جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت سمجھتا۔
مسلم امہ کا یہ اجتماعی المیہ ہے کہ اس کی قیادتیں مصلحتوں اور مفادات سے خود کو باہر نکالنے کی ہمت ہی پیدا نہیں کر پاتیں جبکہ فروعی اختلافات میں الجھ کر مسلم ممالک ایک دوسرے سے ہی برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ مسلم دنیا کی انہی کمزوریوں سے اسلام دشمن اتحادی قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے اور وہ مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے کمزور کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی مذموم منصوبہ بندی آگے بڑھائے چلی جا رہی ہیں۔ مسلم دنیا کی انہی کمزوریوں کے باعث دوسری جنگ عظیم کے بعد الحادی قوتوں کو مسلمانوں کی آزاد ریاست فلسطین سے صہیونی ریاست اسرائیل تشکیل دینے کا موقع ملا جس نے بالآخر فلسطین کے 80 فیصد علاقے بشمول بیت المقدس پر اپنا تسلط جما لیا اور فلسطینیوں پر ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈا استعمال کرکے آزاد فلسطین کیلئے ان کی آواز دبانے کی کوشش کی۔ اور آج یہی مظلوم فلسطینی الحادی قوتوں کے نزدیک دہشت گرد ٹھہرے ہیں جنہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے آج شدومد کے ساتھ اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ ایسا ہی سلوک ہمارے خطہ میں کشمیریوں کے ساتھ کیا گیا جن کی آزاد ریاست کشمیر پر بھارت نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی جبری تسط قائم کیا اور مسلم دنیا کی بے عملی کے باعث آج کشمیری عوام بھی ظالم بھارتی فوجوں کے مظالم سہتے اپنے حق خودارادیت کیلئے تنہا جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس وقت اسرائیلی فوجوں کے فضائی اور زمینی حملوں سے غزہ کا جو نقشہ بنا ہوا ہے جس میں مظلوم فلسطینیوں کی لاشوں کے ٹکڑوں‘ بے یارومددگار کھلے آسمان تلے پڑے زخمی باشندوں اور عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہوئے کٹے پھٹے علاقے کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا اور اس کے باوجود مسلم دنیا میں اپنے مظلوم بھائیوں کی عملی معاونت کے کسی جذبے کی رمق تک پیدا ہوتی نظر نہیں آرہی تو اسلام دشمنوں کو ہماری کمزوریوں کو بھانپ کر اسی طرح ظالم بھارت کے ساتھ کھڑا ہونے کا کیوں موقع نہیں ملے گا۔ آج غزہ کا علاقہ انسانی خون سے رنگین ہوکر حق و صداقت کا پرچم تھامے فلسطینیوں پر نئی کربلا بپا ہونے کی گواہی دے رہا ہے جہاں گزشتہ تین ہفتے سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجہ میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چھ ہزار سے زائد فلسطینی مردوخواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔ہزاروں زخمی باشندے بے یارومددگار پڑے غیبی امداد کے منتظر ہیں اور اسرائیلی فوج نے اس علاقے میں کوئی ہسپتال‘ کوئی سکول‘ کوئی مسجد‘ کوئی خیراتی ادارہ اور مارکیٹوں سمیت کوئی بھی پبلک مقام صحیح سلامت نہیں چھوڑا۔ آنے والے دنوں میں مظلوم فلسطینیوں کا مزید کیا حشرہونا ہے‘ ان کے خلاف الحادی قوتوں کے اتحاد سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیا یہ وقت فلسطینیوں کی حمایت کیلئے محض زبانی جمع خرچ سے کام لینے‘ رسمی مذمتی قراردادیں منظور کرنے اور محض مذمتی بیانات جاری کرنے کا ہے یا مسلم دنیا کو غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی عملی حربی معاونت کیلئے اس کے ساتھ جا کر کھڑا ہونا چاہئے؟۔ اگر آج مسلم دنیا کی نمائندہ تنظیم او آئی سی ہی مفادات میں لپٹی ہوئی ہے تو فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حق میں کلمہ خیر کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ اجتماعی طورپر پوری مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔