پتنگ کی دکان 

Oct 26, 2024

منظرالحق … دانش

منظر الحق

Manzarhaque101@gmail.com 

بچپن میں ہمیں پتنگ بازی کا بے تحاشا جنون تھا،بیچاری والدہ کے منع کرنے کے باوجود ہم روزانہ چھت پر چڑھے پیچ لڑا رہے ہوتے اور اکثر اوقات ہماری اکیلی گڈی فاتحانہ انداز سے ہواوں میں تیر رہی ہوتی۔والدہ دہلی سے تعلق رکھتی تھیں،پتنگ بازی،کبوتر بازی،لٹو و کنچے لاابالی لڑکے کھیلا کرتے اور شاید اسی کھلندڑے پن میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتے تھے۔ان وجوہات کی بنا پر والدہ محترمہ کو ان کھلیوں سے سخت نفرت تھی،ہم چونکہ اپنے آپ کو پتنگ بازی میں خاصا ماہر گردانتے تھے ،لہذا موسم سرما میں ہر شام ہماری پتنگ تنی کھڑی رتی تھی اور آس پاس والوں کو دعوت جنگ دے رہی ہوتی۔ 
پتنگ کی دکان گھر سے ایک میل دور سڑک کے پار تھی،اس کے مالک ایک بزرگ شخص تھے اور وہ اپنی پتنگوں کو بڑی محنت سے بناتے تھے۔وہ رنگین لنگی و بنیان میں ملبوس رہتے ،لال رنگ کی چھدری لمبی داڑھی چہرہ پر سجائے ،یہ جھریوں سے بھرے چہرے کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش تھی اور سر پر تنکوں والی ٹوٹی پھوٹی چھید والی ٹوپی رکھی رہتی۔ان کی دکان خاصی گرم رہتی،وہ ہر وقت پسینے میں شرابور ہوتے اور کسی نہ کسی کام دھندے میں مصروف نظر آتے۔دکان گھر کا ایک حصہ تھی،پچھلی سمت میں ان کی بیگم کا کمرہ تھا اور وہ گاہے بگاہے پانی و مشروبات بھیجتی رہتیں۔ 
میں نے انھیں کبھی بابا جی کے علاوہ کسی لقب سے نہیں پکارا،وہ بھی اس لقب سے خاصے مطمئین نظر آتے اور اس کے استعمال پر کبھی مجھے روکا ٹوکا نہیں۔ان کی پتنگیں خاصی رنگدار و وضع دار ہوتیں تھیں،مضبوط کاغذ سے بنی ہوءیہ پتنگ مجال ہے کبھی اڑان کے دوران پھٹ جائے اور وہ بزرگ کی کاریگری کا اعلی نمونہ تھیں۔کوءدم دار،کوءچھلے والی اور کوءپھول والی،الغرض وہ پتنگوں کو بنانے میں کسی مصور سے کم نہیں تھے،کسی میں پٹیاں ڈال دیتے اور کوءآنکھوں والی بنا دیتے تھے۔ 
ان کا مانجھا بنانے کا طریقہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا،دو بانس کے کھمبے لگا کر ان کے درمیان ڈور کھینچ دیتے تھے اور پھر اپنے خاص مانجھے کے مرکبات کا لیپ اس پر چڑھا دیتے۔یہ عمل کءدفع دہرایا جاتا،پھر اس کو سوکھنے دیا جاتا اور چند گھنٹوں بعد چرخی ہر چڑھا دیتے۔ان کا مانجھا بہت تیز ہوتا تھا،اسی وجہ سے ہم ان کے معتقد تھے اور بسا اوقات اس سے انگلیاں تک کٹ جاتیں تھیں۔پتنگوں کی قیمت نہایت مناسب رکھتے،کوءبھی دو چار آنے سے زیادہ کی نہ ہوتی تھی اور اسی مناسبت سے مانجھے کی قیمت بھی گراں نہیں تھی۔قسم قسم کے رنگدار مانجھے چرخیوں پر لپٹے ہوتے تھے،کوءبہت پتلا،کوءبہت موٹا اور بیشتر مناسب حجم کے۔ 
بزرگ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ بچوں سے مخاطب ہوتے،ہماری ساری ضروریات کا احسن طریقے سے ازالہ کرتے اور جہاں کہیں مشورے کی ضرورت سمجھتے بلا تکلف اس سے نوازتے۔ہم کھینچ کر پتنگوں سے پیچ لڑاتے تھے،لہذا ان کے مشورے کے مطابق تیز دھار مانجھا خریدتے اور ڈھیل دینے والوں کی پتنگوں کو کاٹنے کی ترکیبیں ذہن میں وضع کرتے۔جہاں ان کے خیال سے پیسے زیادہ خرچ ہو جاتے،فورا اپنی تجوری کا منہ بند کر دیتے اور اس بچے کو گھر کا راستہ دکھا دیتے۔ انھوں کبھی بھی ناجائز پیسے بٹورنے کی فکر نہیں کی،نہایت قانع و شاکر بزرگ تھے،اپنی روزمرہ کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور جہاں دن کی دھاری مکمل۔ہوء،وہ دکان بڑھا دیتے تھے۔ 
یہ سلسلہ کءسال یونہی چلتا رہا،بزرگ نحیف و نزار ہوتے گئے،پر اپنے ہاتھ کی کماءکھاتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے۔ایک دن دکان پہنچا،اس کے آگے محلے والوں کا ہجوم اکھٹا تھا اور ہم ذرا دھم ہو گئے۔اللہ تعالٰی کا بلاوا آ گیا تھا،وہ آخری عمر تک رزق حلال کی تگ و دو میں لگے رہے اور خدائے بزرگ و برتر ،رحمان و رحیم اور غفور و رحیم نے حضرت عزرائیل کو ان کی مشکل آسان کرنے کے لیئے بھیج دیا تھا۔ 

مزیدخبریں