چنار…پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی
mallotiriazasghar@gmail.com
بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے نام نہاد الحاق کی دستاویز کو بنیاد بنا کر 27اکتوبر 1947ء اپنی افواج کشمیر میں داخل کرکے کشمیر کے بڑے حصے پر جابرانہ قبضہ کیا تھا۔ باونڈری کمیشن نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کے لئے گرداسپور اور پٹھانکوٹ کا مسلم اکثریتی علاقہ مہیا کرکے بہت بڑی نا انصافی کی۔ اگریہ علاقہ بھارت کو نہ ملتا تو بھارت کو کشمیر میں داخلہ کے لئے کوئی زمینی راستہ نہیں تھا۔ باونڈری کمیشن کے غیر منصفانہ فیصلے کی وجہ سے نہ صرف مس?لہ کشمیر پیدا ہوا بلکہ نوزائیدہ پاکستان کے لئے نہری پانی، مہاجرین کا مس?لہ وغیرہ جیسے سنگین مسائل بھی پیدا ہوئے۔ برصغیر کی نیم خود مختار ریاستوں جو براہِ راست برٹش انڈیا کے ماتحت نہ تھیں۔ 3جون 1947ءتقسیم ہند کے اعلان میں گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن نے یہ اعلان کیا تھا کہ ریاستوں کے حکمران اپنی رعایا کی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ سے زبردستی الحاق نامے پر دستخط کرائے گئے۔ کچھ لکھتے ہیں کہ جب ہری سنگھ نے قبائیلیوں کے خلاف بھارتی فوج کشمیر بھیجنے کی درخواست کی تو بھارت نے یہ شرط رکھی کہ پہلے الحاق پر دستخط کرو پھر بھارت فوج بھیجے گا۔ اس پر مہاراجہ نے مجبور ہو کر دستخط کئے تام ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مہاراجہ کشمیر کو خود مختار رکھنا چاہتا تھا اور خود ریاست کا حکمران رہنے کا خواہشمند تھا۔بھارت نے کشمیر کی طرح ریاست حیدرآباد، دکن اور جونا گڑھ پر بھی جابرانہ قبضہ کیا۔ دکن اور جونا گڑھ ریاستوں کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کی درخواست کی۔ قائداعظم نے منظور کرلی مگر بھارت نے زبردستی قبضہ کر لیا البتہ 1947ئ میں ہم سے ایک سنگین غلطی ہوئی کہ بھارت خواہشمند تھا کہ پاکستان حیدرآباد دکن سے دستبردار ہو جائے ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ تجویز لیاقت علی خان کے سامنے رکھی گئی تو وہ یہ کہتے ہوئے انکار ہو گئے کہ ہم حیدرآباد دکن کے سرسبز شاداب کھیت چھوڑ کر کشمیر کے پہاڑوں کو کیا کریں گے لیکن حالات کے جبر نے نہ کشمیر کے پہاڑ چھوڑے نہ حیدرآباد دکن کے سرسبز و شاداب کھیت ملے۔ 27اکتوبر ہر سال ہم یوم سیاہ بناتے ہیں۔ گزشتہ 77سالوں سے ہم یہی کچھ کر رہے ہیں جب کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ نہ صرف مضبوط کیا بلکہ اب تو 5اگست 2019ء کے بعد کشمیر بھارت کا آئینی حصہ ہے۔27اکتوبر 1947ءجب بھارت نے افواج کشمیر میں داخل کیں اگر پاکستان بھی بروقت مسلح افواج کشمیر میں داخل کر لیتا مجاہدین کشمیر کی مدد کی جاتی تو آج نقشہ کچھ اور ہوتا۔ لائن آف کنٹرول چکوٹھی کے بجائے بارہمولہ سے آگے ہوتی۔ پونچھ ہمارے پاس ہوتا۔ جموں کے علاقے تحصیل مینڈھر اور اوڑی کے علاقے ہمارے پاس ہوتے۔ یہ تمام علاقے جو مجاہدین نے اپنا خون دے کر فتح کئے تھے واپس بھارتی قبضے میں چلے گئے۔ مجاہدین کو بروقت نہ اسلحہ مل سکا نہ افرادی قوت نہ راشن نہ موسم کی شدت سے بچنے کے لئے مناسب لباس تھا۔ مجاہدین بے بس ہو کر پسپا ہوئے۔ اسی دوران یکم جنوری 1948ء بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے یکم جنوری 1949ءکشمیر میں جنگ بند کروالی۔ پھر اقوام متحدہ نے 13اگست 1948ءکو اور یکم جنوری 1949ءکشمیر میں رائے شماری کروانے کی قراردادیں منظور کیں۔ پاک بھارت دونوں نے اس پر اتفاق کیا تاہم جلد ہی بھارت نے معاہدہ سیٹو اور سینٹو کو بنیاد بنا کر اور مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی قراردادوں کو بہانہ بنا کر کشمیر میں رائے شماری سے انکار کرکے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ فطری لحاظ سے کشمیر کا الحاق بھارت سے نہیں بلکہ پاکستان سے بنتا ہے۔ ہم کشمیر کی وحدت چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران اور سیاستدان کے ساتھ مقتدر قوتیں کشمیرپر یو ٹرن لے کر کبھی کشمیر کو تقسیم اور کبھی آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی باتیں کرکے مسئلہ کشمیر کو کمزور کر رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ کشمیری مسلمان کشمیر کی مکمل آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔اگر مسئلہ کشمیر منصفانہ طریقے سے حل نہ ہوا تو پاک بھارت جنگ بندی معاہدے کے باوجود مسئلہ کشمیر پر خوفناک ایٹمی جنگ کے خدشات سو فیصد موجود ہیں۔ اس لئے مسئلہ کشمیر کی سنگینی کو سمجھ کر اسے حل کیا جائے۔ 1989ءکے بعدایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو بیدردی سے شہید کیا گیا ہے۔ 25ہزار خواتین بیوہ، ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ بچے یتیم، ایک لاکھ سے زائد گھروں کو جلایا گیا۔ ہزاروں ہمیشہ کے لئے معذور کر دئیے گئے۔بھارت کے ایک جرنل نے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عورتوں کی عصمت دری جنگی ہتھیار کے طور پر جائز ہے۔ ملک یاسین سمیت ہزاروں بے گناہ کشمیری ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں۔ اس ظلم و بربریت کے باوجود آزادی کی تحریک جاری ہے۔ آئے روز سرینگر کے علاقوں میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے۔ ان حالات میں بھی کشمیری سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں اور پاکستانی پرچم میں دفن ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی خاموش تماشائی کا کردار اداکر رہے ہیں۔امریکہ منافق مسلمان ٹولے کا سربراہ ہے جو مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل میں رکاوٹ ہے۔بھارتی مودی کی انتہا پسند حکومت کی پشت پناہی کی جا رہی ہے۔ پاکستان کے حکمران کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ کشمیر ی آزادی حصول تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔