ابو القاسم مفتی محمد عثمان

Oct 26, 2024

ڈاکٹر ضیاء الحق قمر

ڈاکٹر ضیاءالحق قمر
آپ 1925ءمیں شمس آباد (اٹک) میں مولانا مفتی محمد عمر کے ہاں پیدا ہوئے۔ وادیِ چھچھ میں آپ کا گھرانہ علمی طور پر اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آپ کی تعلیم کا آغاز ناظرہ قرآن کریم سے ہوا۔عربی اور فارسی کی ابتدائی کتب اپنے دادا مولانا فضل حق محدث شمس آبادی سے پڑھیں جو کہ علاقہ کے ممتاز عالم دین تھے۔ صرف ونحو کی کافیہ تک کی کتب اپنے والد سے پڑھیں۔ نور الایضاح و دیگر کتب کی تعلیم مولانا عبدالدیان دامانوی سے حاصل کی۔ قدوری اور کنز الدقائق کے لیے کامل پور موسیٰ میں مولانا سید رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے وہیں پر ان کے بیٹے مولانا محمد عمر خان سے شرح ملا جامی اور رسائل منطق پڑھے۔ پھر اپنے والد کے فرمان پر موضع حیدر (چھچھ) کی مشہور درس گاہ میں مولانا عبد الحکیم کی خدمت میں 3 برس گزارے اور خوب دلجمعی سے پڑھا۔ 1937ءمیں زروبی(صوابی) میں صاحب حق کی خدمت میں حاضر ہوئے یہاں منطق،فلسفہ اور علم الکلام کی تعلیم حاصل کی۔
1937ءمیں جامعہ فتحیہ تشریف لائے امتحان کے بعد داخلہ کے مستحق ٹھہرے۔ یہاں دو سال تعلیم حاصل کی اس دوران جامع المعقول والمنقول مولانا مہر محمد اچھروی سے منطق اور فلسفہ کی انتہائی کتب پڑھیں۔ اس دوران مولانا رسوال خان طلبہ کے امتحان کے لیے جامعہ فتحیہ تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ 1941ءمیں جامعہ نعمانیہ (امرتسر) تشریف لے گئے وہاں مفتی محمد حسن اور مولانا عبدالرحمن ہزاروی سے پڑھتے رہے۔ وہاں آپ کے ہم سبقوں میں مولانا عبید اللہ المفتی بن مفتی محمد حسن بھی تھے۔ امرتسر میں قیام کے دوران مفتی محمد حسن کے ہمراہ تھانہ بھون میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملا۔ اس دوران حکیم الامت کے علمی، ظاہری باطنی فیضان سے بھر پور مستفید ہونے کا موقع بھی ملا۔
آپ 1944ءمیں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے جہاں مولانا عبدالسمیع نے داخلہ کے لیے امتحان لیا۔ 1945ءمیں وہاں سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔ آپ کی سند فراغت کا نمبر 3146 ہے۔ آپ نے اس کے علاوہ شیخ الحدیث مولانا فخر الدین احمد سے سند ’اجازة الحدیث ‘ بھی حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند میں قیام کے دوران آپ کو مولانا عبید اللہ سندھی کے حجة اللہ البالغة کے دروس میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ آپ نے 1945ءمیں مولوی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کے تدریسی سفر کا آغاز ہوا۔آپ نے مفتی محمد حسن کے حکم پر کچھ عرصہ خطابت بھی کی۔ 1948ءتا 1949ءمیں ٹنڈو الہ یار میں ایک نیک دل رئیس کے بچوں کے اتالیق رہے۔ 1950ءمیں مولانا حسین احمد مدنی سے اصلاحی تعلق قائم ہوا۔
آپ اپنے والد گرامی کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ عثمانیہ صوت الاسلام میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ ہائی سکول حضرو سے منسلک ہو کر نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے۔ آپ نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی خدمت دین کی ہے۔ آپ کی علمی یادگاروں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ محاسن اسلام 
2۔ہدایة الشیعة
3۔تذکرة المصنفین درس نظامیہ
4۔معراج المومنین
5۔تلخیص الآغانی
6۔جامع اقسام العلوم و انواع الفنون
مفتی محمد عثمان نے 25 نومبر 1980ءکو دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کیا۔

مزیدخبریں