ہفتہ‘22 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 26 اکتوبر 2024

پورا ملک بند کرنے کی تاریخ کا اعلان کروں گا، علی امین گنڈا پور۔
پہلے بھی گنڈا پور اپنے مخصوص نوری منت انداز میں دھمکی اور تڑی لگاتے رہے ہیں۔تب لگاتے تو مخالفین تھر تھر کانپنے لگتے۔ پھر جب مخالفین کا بس چلا تو ان کے بال و پر کاٹ دیئے گئے مگر ان کے لب و لہجے میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ بڑے بڑے جلسے کئے، جلسوں سے برے دعوے کئے۔ ڈیڈ لائن دینا کوئی ان سے سیکھے۔ جیل کے دروازے اکھاڑنے کا اعلان کر دیا۔ ڈیڈ لائن دے کراسے ریڈ لائن بھی قرار دیا۔ مگر ان کا یہ اعلان اور ڈیڈ لائن ”پھوکا فائر“ ثابت ہوئی۔اس کے بعد مخالفین کے دل و دماغ میں ان کا بیٹھا خوف دور ہونے لگا۔ یہ اسلام آباد کو بند کرنے کے اعلان کے بعد ڈی چوک پہنچ کر تھک گئے۔ لک کر کے پی ہاوس پہنچے‘ وہاں ٹینکی کی چھت پر کنڈلی مار کر سمٹ کے لیٹے رہے۔ 
پھر ان کے بقول چھپتے چھپاتے اسلام آباد کی پولیس کی آنکھوں میں جنتر منتر پھونکتے ہوئے سیدھے کے پی اسمبلی کے اجلاس میں جا نکلے۔ لاہور جلسے میں پہنچنا تھا راستے میں شیشے توڑ اپریشن میں معروف ہوئے اور کاہنہ جلسے کا وقت ان کا انتظار کرتے کرتے گزر گیا۔ اب ان کی طرف سے کسی شہر صوبے یا پورے ملک کو بند کرنے کا اعلان ہوتا ہے تو حکومت سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہتی ہے خیر ہے یہ اپنا ہی بندہ ہے۔ گنڈا پور نے خود کو تڑیوں، دھمکیوں کا غازی ثابت کر دیا ہے۔ اب حکومت چین ہی چین لکھ رہی ہے۔
پیو ٹن کے نزدیک جو بائیڈن اور ہیرس کی کوئی حیثیت نہیں : ٹرمپ 
امریکہ اور روس کی دیرینہ دشمنی چل رہی ہے۔ یہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں ککرے اور کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف انتخابات میں بگاڑ پیدا کرنے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ ان دو ممالک میں دشمنی آخری حدوں کو چھوتی رہی ہے مگر مجال ہے کہ ایک دوسرے پر حملہ کریں۔ حملے اور شدید نقصان پہنچانے سے باز بھی نہیں رہتے مگر ایسے نیک، اعلیٰ اور ارفع مقاصد کے لیے پراکسیز کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اپنے سے چھوٹے ممالک کو گرم جنگ کا ایندھن بنا دیتے ہیں۔روس اور امریکہ کبھی دونوں برابر کی سپر پاور ہوا کرتے تھے۔ روس افغانستان آیا۔ بعد میں دہشتگرد قرار پانے والے مجاہدین کو امریکہ نے اسلام کے سچے سپاہی قرار دے کر کفر و اتحاد کے خلاف کھڑا کر دیا۔ جس سے روس ٹوٹا اور بکھر گیا۔امریکہ اس کے بعد سے واحد سپر پاور چلا آ رہا ہے۔ روس کی سپر پاور کی حیثیت ختم ہو گئی مگر وہ بدستور امریکہ کی ٹکر کی قوت ہے۔
آج کمزور یوکرین طاقتور روس کے گلے پڑا ہوا ہے۔ گویا ممولا شہباز سے لڑ گیا ہے۔ ممولے کو شہباز سے کون لڑا رہا ہے؟ امریکہ اور روس کے مابین سرد جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی جبکہ گرم جنگ کبھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ٹرمپ کی طرف سے یہ کہنا کہ پیوٹن کے نزدیک جو بائیڈن اور کملا پیرس کی کوئی حیثیت نہیں، دشمن کی نظر میں دشمن کی کسی حیثیت کا نہ ہونا ہی مناسب گردانا جاتا ہے۔ اوپر سے الیکشن ہیں۔ ٹرمپ امریکی ووٹر کو کملا کی طرح اپنی طرف مائل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی روسیوں سے محبت نہیں کرتے۔ پیوٹن کی نظر میں موجودہ امریکی صدر اور نائب صدر کی کوئی حیثیت نہیں گویا ٹرمپ کی حیثیت ہے۔ اسے امریکی ووٹر کس طرح لے گا۔ اس کا ٹرمپ کوجوشِ خطابت میں اندازہ نہیں رہا۔
حالات بدلنے والے ہیں‘ سیٹی بجنے والی ہے‘ ان کا وقت گزر چکا ہے۔شیخ رشید
شاہد آفریدی کی طرح شہباز شریف کے شیخ حرم سیاست میں ٹلے مارتے ہیں۔ جوکبھی چوکے اور اکثرچھکے میں بدل جاتے ہیں۔ آوٹ ہونے پر آئیں تو گیند اچھی بری کوئی معنی نہیں رکھتی۔ باونڈری پر پکڑے جائیں۔ بولڈ ہو جائیں یا بغیر گیند کے رن آوٹ ہو جائیں۔ زیادہ عرصہ قبل کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انہیں گیٹ نمبر4والے اٹھا کر لے جائیں گے۔ پھر وہ کہتے سنے گئے کہ مجھے گرفتار سی پی او نے کیا اور بد نام دوسروں کو کر دیا گیا۔ فی سبیل اللہ انہیں معاف کرتا ہوں۔ اگر شیخ صاحب انہیں فی سبیل اللہ معاف نہ کرتے تو کیا کرتے؟ اگلے جہان جا کر ہی بدلہ لے سکتے تھے۔ سی پی او نے چلہ گاہ بھی بنا رکھی ہے ؟ جہاں پہ وہ چلا کاٹتے رہے۔
 ڈیڈ لائن دینے ریڈ لائن بتانے میں بھی شیخ صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ انہوں نے 20ستمبر تک ملک میں ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ سوشل میڈیا نے نہیں چھوڑی تھی یہ بڑے اخبارات کی خبر تھی۔ انہوں نے یہ بات 12اگست کو کی تھی۔ اس دن کے بعد پیشگوئی پوری ہونے میں ڈیڑھ ماہ پڑا تھا۔ اتنے عرصے میں لوگ بھول گئے۔30ستمبر کے لیے بھی ان پیشگوئی ایک ڈیڈ لائن کی صورت میں کی گئی تھی۔تیس ستمبر کو سیاست کا اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ جائےگا۔ اب اکتوبر اختتام پذیر ہونے کو ہے مگر اونٹ وہیں کھڑا ہے۔ ویسے شیخ صاحب ڈیڈ لائن دیتے ہوئے تاریخ دیا کریں تو 31نومبرکیساتھ 31 ستمبر اور 30فروری دیا کریں۔ نہ یہ تاریخیں آئیں نہ پیشگوئی پر حرف آئے۔
سانگھڑ میں دریافت تیل و گیس کے کنویں سے پیداوار شروع ہوگئی۔
پورے ملک میں گیس اور تیل کے ہی نہیں بلکہ سونے چاندی‘ جپسم کے ذخائر دریافت ہونے کی خبریں اوپر نیچے آتی رہی ہیں۔خبروں کو لے کر عوام بڑے خوش ہو جاتے تھے۔کچھ عرصے بعد پتہ چلتا کہ بس خبر ایویں کمپنی کی مشہوری کے لیے چلا دی گئی تھی۔ایک موقع پر تو کئی سال قبل پوری پنجاب حکومت چنیوٹ کے پہاڑوں سے سونے چاندی کی دریافت پر ضیافت پہ ضیافت کرتی رہی۔ایک عرصے کے بعد یہ موقع آیا ہے کہ سانگھڑ میں دریافت ہونے والے تیل اور گیس کی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔یوں لگتا ہے کہ پورے ملک کے عوام کا مہنگائی گیس بجلی کے بلوں میں اضافے اوور بلنگ اور لوڈ شیڈنگ کے ذریعے نکالے جانے والا سارے کا سارا تیل سانگھڑ میں جمع ہو گیا ہے۔چلیں جو بھی ہے تیل تو ہے‘ نکل تو رہا ہے۔ زمین میں پڑے پڑے اس نے کون سا سونا بن جانا تھا۔ سونا بن بھی جاتا تو کس کے کام آنا تھا۔
سونے چاندی کے ذخائر بھی کیا اسی طرح بنتے ہیں؟ بہرحال خبر اچھی ہے کہ سمبار فارمیشن میں دریافت شدہ بلوچ 2 کنویں کو سنجھورو بلاک میں پیداوار کے لیے فعال کر دیا گیا ہے،بلوچ 2 کنویں سے اگست 2024 کو 3920 میٹر تک کھدائی کے بعد تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تھے۔او جی ڈی سی ایل کے ترجمان کے مطابق بلوچ 2کنویں سے 350 بیرل یومیہ تیل اور 50 لاکھ ایم ایم ایس سی ایف ڈی یومیہ گیس کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے، بلوچ 2کنویں کی دریافت سے علاقے میں خوشحالی اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔

ای پیپر دی نیشن