مولانا ظفر علی خان کا شمار تحریک پاکستان کے اہم لیڈروں اور ممتاز صحافیوں میں ہوتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان فاونڈیشن ہفتہ وار فکری نشستوں کا اہتمام کرتی ہے۔سکالرز کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اہم عالمی قومی سیاسی معاشی نظریاتی ثقافتی اور سماجی موضوع پر اظہار خیال کریں- فکری نشست کے آخر میں سوال وجواب کا موقع فراہم کیا جاتا ہے تاکہ حاضرین بھی زیر بحث موضوع کے بارے میں اپنا موقف پیش کر سکیں- مولانا ظفر علی خان فاونڈیشن کے چیئرمین محترم خالد محمود پر عزم اور سرگرم کردار ادا کررہے ہیں وہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ کا گہرا ادراک رکھتے ہیں - ان کو فاونڈیشن کے نیک نام جنرل سیکرٹری ڈاکٹر شفیق جالندھری اوریا مقبول جان حکیم راحت سوہدروی اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی دختر ارجمند رضا ریاض کی پر جوش معاونت حاصل ہے- گزشتہ ہفتے پاکستان کے نامور صحافی و اینکر سہیل وڑائچ نے” عالم اسلام کو درپیش مسائل پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق“ کے موضوع پر فکر انگیز محققانہ لیکچر دیا- ان کا انداز بیان چونکہ آسان فہم تھا اس لیے ان کے لیکچر کا پورا ابلاغ ہوا- انہوں نے اپنے لیکچر کے آغاز میں سوال اٹھایا کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 2 ارب ہے عالم اسلام کے 57 ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں- مسلمان ملکوں ترکی مصر اور پاکستان کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں کیا جاتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنی عددی اہمیت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور اس عددی طاقت کو عالم اسلام کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کر سکے-انہوں نے اپنے لیکچر کے اگلے مرحلے میں خوبصورت اور دلچسپ انداز میں اس سوال کا جواب بھی دے دیا-محترم سہیل وڑائچ نے کہا کہ عالم اسلام کے کسی بھی ملک میں مکمل جمہوری نظام موجود نہیں ہے جبکہ جدیدیت اور فکر و فن پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں-انہوں نے کہا کہ عالم اسلام گزشتہ 600 سال سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے- اسرائیل کی آبادی لاہور سے کم ہے مگر وہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے عالم اسلام پر حاوی نظر آتا ہے-اسرائیل کے پاس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا ایسا سسٹم موجود ہے کہ اسے فلسطین کے ہر گھر کا علم ہو جاتا ہے کہ اس گھر میں کون آیا ہے یا کون نکلا ہے-چنانچہ وہ اس اعلی معیار کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے جس کو چاہتا ہے اسے ٹارگٹ کر کے ہلاک کر دیتا ہے-انہوں نے کہا کہ ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور جب تک غلطی کو تسلیم نہ کیا جائے کوئی بھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتا-انہوں نے کہا کہ مسلمان مفکر ابن سینا اور ابن رشد مغرب کے ہیرو ہیں مگر ہم نے ان کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی-ہماری مثال علامہ اقبال کے اس شعر کی مانند ہے-
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
انہوں نے کہا کہ 1857ءکی جنگ ازادی سے بہت پہلے ہی مغلیہ بادشاہت زوال کا شکار ہو چکی تھی اور برطانیہ نے سکیورٹی اور فنانس کی طاقت سے اس پر خاموش قبضہ کر رکھا تھا-سرسید احمد خان ایک ویڑنری لیڈر تھے انہوں نے آثار الصنادید اور آئین اکبری جیسی اعلیٰ کتب قلم بند کیں-اسد اللہ غالب ان کے والد کے دوست تھے تو وہ ان کے پاس گئے اور آئین اکبری کا دیباچہ لکھنے کی درخواست کی-اسد اللہ غالب نے ایک فارسی کی نظم لکھ کر ان کو ارسال کر دی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میرے بھتیجے آئین اکبری کی بجائے جدید زمانے کا مطالعہ کرو اور جدید زمانے کی ایجادات پر غور و فکر کرو-سر سید احمد خان نے جب سائنس اور انگریزی کی تعلیم پر زور دیا تو ان کو سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا- انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے علی گڑھ کالج قائم کیا جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بن گیا اور اس علی گڑھ یونیورسٹی سے تحریک پاکستان نے جنم لیا اور پاکستان کا قیام ممکن ہوسکا - انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وجہ ہے کہ دینی مدارس میں سے کوئی ایک بھی ویڑنری لیڈر پیدا نہیں ہو سکا-جبکہ انگریزوں کے بنائے ہوئے مشن کالج سیالکوٹ نے مولوی میر حسن جیسے استاد اور علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسی شہرہ آفاق شخصیات پیدا کیں- انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں مغرب سے متاثر تھے اور دونوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی تھی وہ دونوں مسلمانوں کے نامور اور ممتاز لیڈر بن گئے جبکہ کوئی مذہبی شخصیت مسلمانوں کی قد آور لیڈر نہ بن سکی- گاندھی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور ہندووں کے نامور لیڈر بن گئے-محترم سہیل وڑائچ کی اس بات سے مجھے علامہ اقبال کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ جب انگریزوں نے ان کو سر کا خطاب دینے کی پیشکش کی تو علامہ اقبال نے کہا کہ وہ اس شرط پر سر کا خطاب لیں گے جب ان کے استاد مولوی میرحسن کو بھی سر کا خطاب دیا جائے گا -انگریز گورنر نے پوچھا کہ آپ تو مفکر ہیں شاعر ہیں اور اپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں آپ کے استاد نے کون سی کتاب لکھی ہے تو علامہ اقبال نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا کہ میرے استاد مولوی میر حسن نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ڈاکٹر محمد اقبال ہے- محترم سہیل وڑائچ نے کہا کہ مسلمانوں میں تعلیم و تربیت اور سوچ کی کمی ہے مسلمانوں نے جتنی جنگیں لڑیں ان کی بنیاد قبائلی عصبیت تھی۔ بنو ہاشم بنو عباس بنو امیہ سب قبائلی عصبیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ جنگیں لڑتے رہے-جب مغل بادشاہ آگرہ میں تاج محل تعمیر کر رہے تھے تو برطانیہ میں کوئین میری سکول تعمیر کیا جا رہا تھا-سلطنت عثمانیہ اور سلطنت مغلیہ اپنے ادوار میں آکسفورڈ اور کیمبرج کے مقابلے میں ایک بھی یونیورسٹی نہ بنا سکے-مغلیہ سلطنت شعر و شاعری قصیدہ گوئی اور گھوڑے دوڑانے میں مصروف رہی جبکہ مغربی ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے رہے-انہوں نے کہا کہ ترکی میں 500 سال تک خطاطی اور کیلی گرافی کے ذریعے کتب شائع ہوتی رہیں اور انہوں نے پرنٹنگ پریس کو کفر قرار دے دیا جسے یہودی اپنی کتب کی طباعت اور اشاعت کے لیے استعمال کر رہے تھے-فرانس نے ترکی کو ایک قیمتی گھڑیال تحفہ کے طور پر دیا- مذہبی علماءنے اسے کفر قرار دے دیا اور اس کو ایک چوک میں رکھ کر پتھر لاٹھیاں مار مار کر توڑ دیا گیا- لاوڈ سپیکر پر کفر کے فتوے لگائے گئے- جو کوئی پینٹ شرٹ اور ٹائی استعمال کرتا اس پر گاوں کے کتے بھی بھونکتے تھے اور اسے اجنبی سمجھتے تھے- ہیئر کٹ پر پابندیاں لگائی گئیں- محترم سہیل وڑائچ کی اس بات سے مجھے اپنا مشاہدہ یاد آیا۔ میرے دادا جان صوفی احمد دین کٹر مذہبی شخصیت تھے جب میں نے ایک دفعہ اپنی پسند کے مطابق کٹنگ کرائی تو انہوں نے اسے ”کنجر بودا“ قرار دیا اور مشین لے کر میرے سر کے بال دو جگہ سے کاٹ دیے-اسی طرح جب میرے والد عبد الحمید نظامی پہلی بار ریڈیو لے کر گھر میں آئے تو دادا جان نے اسے فرش پر پھینک کر توڑ دیا اور کہا کہ یہ کفر ہے- محترم سہیل وڑیچ نے کہا کہ مغرب نے اسلام کے عروج کے زمانے سے بہت کچھ سیکھا ہے تو ہم مغرب کے حالیہ تجربات اور مشاہدات اور ایجادات سے کیوں نہیں سیکھ سکتے-انہوں نے کہا کہ بقول نوابزادہ نصر اللہ خان -
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاوں سے ٹلی ہے
انہوں نے کہا کہ اسلام کا معاشی ماڈل کچھ سکالرز نے بنایا تو ہے مگر وہ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں نافذ نہیں ہے-پاکستان کے آئین اور قرارداد مقاصد پر اتفاق رائے ہو چکا ہے لہذا ہمیں اب آگے بڑھنا چاہیے اور جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دینی چاہیں-انہوں نے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے فور ٹیز کا نسخہ پیش کیا-پہلا ٹرانسپورٹ جس کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ راستے کھولے جائیں اور رابطے ممکن بنائے جائیں- دوسرا ٹریڈ۔ عالم اسلام کے ممالک نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی ٹریڈ کو فروغ دیں-پاکستان بھارت ایران اور افغانستان سے اوپن ٹریڈ کرے-پاکستان اور عالم اسلام کے ممالک ٹورزم پر توجہ دیں جس کے ذریعے اربوں ڈالر کا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے اور مسلمان ممالک معاشی ترقی کر سکتے ہیں-انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو ٹیکنالوجی پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ مسلمان ملک نہ صرف آپس میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر کریں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کریں- مذہبی سکالرز کے مطابق عالم اسلام کے ممالک کو زوال سے باہر نکلنے کے لیے علم اور اخلاق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے-