اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کو خوفناک عالمی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔اس وقت اسرائیل‘ فلسطین‘ لبنان‘ یمن اور ایران براہ راست نبردآزما¿ ہیں جبکہ شام عراق پہلے ہی اسرائیلی متاثرہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں اس جنگ کا بڑا سبب اسرائیلی جارحیت یا اسکی جارحانہ پالیسیاں ہیں۔ حماس کے راہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور اسکے بعد حسن نصراللہ، انکی بیٹی زینب‘ حذب اللہ کے دوسرے راہنما علی کرد اور ایرانی کمانڈر جنرل عباس اور اب یحییٰ سنوار کی شہادت انہی جارحانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ پہلے پہل بات فقط تخریبی کارروائیوں اور ہوائی حملوں تک محدود تھی۔ اب اسرائیل نے زمینی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ اسرائیلی افواج ٹینکوں کیساتھ لبنان پر حملہ آور ہوچکی ہیں۔ لبنان کے سرحدی علاقوں پر اپنی فوجی چھاو¿نیاں قائم کر رہے ہیں۔ حالات کچھ اس طرح سے بن رہے ہیں کہ جنگ سے متاثرہ لبنانی شہری پناہ لینے کیلئے شام کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کی تاریخ سات دہائیوں پر مشتمل ہے۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد گذشتہ 70 سال سے اسلام دشمن کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایجنسی اپنے ملک میں بھی بہت فعال ہے۔ اگرچہ اسکی ذیادہ تر کارروائیاں ایران‘ عرب ممالک‘ یورپ اور امریکہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس تنظیم نے قاسم سیلمانی کو عراق میں شہید کیا۔ اسماعیل ہانیہ کو ایران اور حسن نصراللہ کو بیروت میں شہید کیا۔ بیروت میں ہزاروں ٹن وزنی کلسٹر بم گرائے گئے ہیں۔ یہ بم خصوصی طور پر زیر زمین عسکری بنکرز کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ بم افغانستان میں تورا بورا کے پہاڑوں پر برسائے گئے۔ عراق پر امریکی حملے کیلئے تیار کئے گئے تھے جنہیں صدام حسین کیخلاف استعمال کیا گیا۔ انہی بموں کا استعمال جب بیروت میں کیا گیا تو جہاں انتہائی اہم شہادتیں ہوئیں وہاں حزب اللہ کا مرکزی دفتر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پیشتر واکی ٹاکی اور پیجرز کے ذریعے فلسطینی اور حزب اللہ کے اہم راہنماوں کیخلاف کارروائی کی گئی۔ جس کے نتیجے میں بہت سی شہادتیں ہوئیں۔ پھر سوال اٹھایا گیا کہ دھماکہ خیز مواد سے لیس واکی ٹاکی سیٹ اور پیجرز ان اہم راہنماوں کو کس نے فراہم کئے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ان واکی ٹاکی اور پیجرز کی فراہمی یا خریداری میں ایک انڈین شخص یا کمپنی ملوث تھی جس کے ذریعے یہ سیٹس خریدے گئے اور فراہمی سے پہلے موساد کے ذریعے ان واکی ٹاکی ڈیوائسز اور پیجرز میں دھماکہ خیز مواد بیٹری کی شکل میں نصب کیا گیا۔ اس سلسلے میں ناروے کی حکومت نے متعلقہ شخص کی گرفتاری اور کمپنی کیخلاف انکوائری کے سلسلے میں کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسرائیل اور انڈیا گٹھ جوڑ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بہت سے معاملات میں انڈیا‘ اسرائیل کو اور اسرائیل انڈیا کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ رفتہ رفتہ اس سلسلے کو مزید بڑھایا جا رہا ہے جس کا اندازہ اقوام متحدہ میں انڈین نمائندے کی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ انڈیا اسرائیل سے بے حد متاثر ہے۔ وہی رویہ پاکستان کیخلاف اپنانا چاہتا ہے جس کا مظاہرہ اسرائیل فلسطین کیخلاف کرتا چلا آرہا ہے۔ انڈیا نے ویسی ہی منصوبہ بندی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کیخلاف کی ہے جیسا سلوک اسرائیل فلسطینیوں کیخلاف رکھے ہوئے ہے۔
اس سے قبل اسرائیل مختلف مسلمان راہنماوں کیخلاف ریموٹ کنٹرول مشین گنوں کا استعمال بھی کر چکا ہے۔اسرائیلی تنظیم موساد کی کارروائیوں کے سبب مشرق وسطی میں بہت سے سانحات رونما ہوچکے ہیں۔ الفتح جیسی آزادی کی تحریکوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ فلسطینی گزشتہ 70 سال سے آزادی کی اس تحریک کو جاری رکھنے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ ہر روز اپنے پیاروں کے لاشے دفناتے ہیں اور پھر اسی جذبہ کے ساتھ باطل کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ان گنت مظالم کے باوجود فلسطینیوں کے دل میں روشن ہونے والی شمع کو آج تک بجھایا نہیں جا سکا۔ ان کیلئے ایک راستہ بند کیا جاتا ہے تو وہ دوسرا راستہ کھول لیتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں آج جو کردار مسلمان امہ کا رہا ہے۔ اس پر سوائے اناللہ واناالیہ راجعون پڑھنے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس وقت کہاں ہے او آئی سی اور کہاں ہے عرب لیگ۔ سب خاموش ہیں۔ یہ خاموشی آج سے نہیں گزشتہ 7 دہائیوں سے ہے۔ ایک چھوٹا سا اسرائیل ہے جو فلسطین‘ لبنان‘ شام‘ عراق اور ایران میں کامیاب تخریبی کارروائیاں کرکے مسلمانوں کی غیرت اور حمیت کو للکار رہا ہے۔ مسلمان ممالک ہیں کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ ہر مسلمان ملک سمجھتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اسے کسی مسئلے میں الھجنے کی ضرورت کیا ہے۔ عربوں کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کوشہ مل رہی ہے۔ وہ اپنے مذموم منصوبوں یا عزائم کی تکمیل کیلئے ایک کے بعد ایک ملک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس منصوبے کا سب سے بڑا مقصد اسرائیلی یہودی ریاست کو استحکام اور دوام بخشنا ہے اور تمام مسلمان ممالک کو اپنا زیر نگین بنانا ہے بلکہ انکے وجود کو ہی سرے سے مٹانا ہے۔
خطے میں امن کیلئے بہت سی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ”ابراہیم اکارڈ“ جیسے امن معاہدے کئے گئے جسمیں اسرائیل کے علاوہ یو اے ای‘ بحرین اور دوسرے عرب ممالک کو بھی شامل کیا گیا مگر سب سے زیادہ متاثرہ فریق فلسطین کو نظر انداز کیا گیا۔ حالانکہ ضروری تھا کہ فلسطین کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اسے بھی ایسے امن معاہدوں میں شریک کیا جاتا۔ اب اسرائیل کو فلسطین کے وجود کو سرے سے تسلیم کرنا گوارہ نہیں۔ اسی سوچ کے تحت خود اسرائیل نے اس معاہدے کو ثبوتاژ کر دیا۔ ایسے بہت سے معاہدے ہوئے۔ جنگ بندی کی گئی مگر اسرائیل نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کیخلاف محاذ کھولے رکھا۔ جب جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ کے دروزے پر دستک دی گئی تو امریکہ نے امن کی اس قرار داد کو ویٹو کر دیا اور اسرائیل کو نہ صرف کھلی جارحیت کا موقع فراہم کیا بلکہ اسے ہر طرح کی امداد بھی فراہم کی۔ امریکہ جیسی بعض بڑی طاقتیں بھی خطے میں امن نہیں چاہتی ہیں وہ خود حالات کو خراب کرنا یا رکھنا چاہتی ہیں تاکہ یہاں کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔ بظاہر یہ کارروائی فلسطین اور لبنان کیخلاف ہے مگر اس سے شام اور عراق بھی متاثر ہوئے ہیں۔اب ایران کو بالکل اسی طرح گھیرنے کی کوشِش کی جارہی ہے جس طرح عراق کے صدام حسین کو ٹریپ کیا گیا تھا۔ اس بات میں اب کسی کو ذرا برابر بھی شک کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسرائیل کےسامنے تین اسلامی ممالک ایران‘ ترکی اور پاکستان نشانے پر ہیں کیونکہ یہ وہ ممالک ہیں جن کی باقاعدہ فوج ہے جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہے۔اسرائیل ان تینوں ممالک کو نشانہ بنا کر عالم اسلام کی عسکری اور دفاعی قوت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی لبنان کیخلاف زمینی کارروائی دراصل ایران کو شہ دینا ہے کہ وہ ہوائی اور میزائل حملوں کی بجائے براہ راست اس جنگ میں کود جائے۔ ایران ابھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہے مگر اسرائیل کو بھرپور جواب بھی دے رہا ہے۔ اس کے میزائل حملے اسرائیل میں تباہی پھیلا رہے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ جنگ ایران تک پہنچ کر عالمی جنگ کی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔
ایران کیساتھ ساتھ یہ جنگ پاکستان کے دروازے پر بھی دستک دے رہی ہے۔ وہ دن دور نظر نہیں آتا جب اس سلسلے میں پاکستان کو اہم کردار ادا کر نا ہوگا۔ طویل عرصے سے مظلوم فلسطینی اور مسجد اقصی کی حرمت پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس لیے پاکستان کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہونگے کہ جن کے ذریعے وہ اندرونی خلفشار اور معاشی مسائل سے نکل سکے۔ مضبوط پاکستان ہی اس ساری صورتحال میں بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتا ہے۔