باولی گِدڑی۔۔۔اور گیدڑ گردی

Oct 26, 2024

فضل حسین اعوان

     گیدڑ بزدلی کا استعارہ ہوا کرتا تھا مگر اب نہیں رہا۔ گیدڑ بزدل رہا ہوگا مگر گیدڑی نہیں۔ آپ کے سامنے گیدڑی کا واقعہ رکھنے جا رہا ہوں۔ جس میں گدڑی نے ایک نوجوان کو کاٹا اور وہ موت کی وادی میں چلا گیا۔یہ واقعہ چند روز قبل فیصل آباد کے نواحی گاوں چک نمبر113گ ب میں پیش آیا۔ حیران کن ہولناک اور خوفناک واقعہ ہے۔
گیدڑ رات کو فصلوں سے نکل کر چیخا کرتے ہیں۔ انکی آواز دور تک سنی جاتی ہے۔ گزشتہ برس چولستان کے اندرسلو والی گیسٹ ہاوس میں قیام کیا۔ وہاں بھی گیدڑ اردگرد رات کو چیختے چنگھاڑتے سنائی دیئے۔ ایک دوست اجاڑ بیاباں اور سناٹے میں ان خوفناک آوازوں سے پریشان ہوئے تو ان کو بتایا یہ تو خود بزدل ہیں ان سے کیا ڈرنا۔گیدڑ اپنی بزدلی کی وجہ سے مشہور ہیں، ان کا تعلق جانوروں کے ”کینین خاندان“ سے ہے جس میں بھیڑیے اور کتے جیسے خونخوار و ناہنجار صفت جانور شامل ہیں۔ گیدڑزیادہ تر جنوب مشرقی یورپ، ایشیا اور افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔جنگل میں اس جانور کی عمر آٹھ سے 10 برس ہوتی ہے۔اگر اسے پال کر اس کا خیال رکھا جائے تو یہ 16برس تک جی سکتا ہے۔گیدڑ سانپ، رینگنے والے جانور، حشرات، چھوٹے غزال، چھوٹی بھیڑیں، پھل، پھلیاں، یہاں تک کہ گھاس بھی کھا جاتے ہیں۔ یہ اپنا علاقہ بنا کر رکھتے ہیں اور اس میں بیرونی گیدڑوں کو نہیں گھسنے دیتے۔گِیدڑکی گیدڑ سنگھی بھی بڑی شہرت رکھتی ہے۔ 
گیدڑ سنگھی کیا ہے؟ گیدڑ سنگھی ایک خاص قسم کے گیدڑ کے سر میں نکلنے والا ایک سینگ ہوتا ہے۔یہ کسی بڑے دانے کی طرح ابھر آتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ عامل حضرات اس سینگ کو اس کی جڑ سمیت گیدڑ کے سر سے نکال کر باقاعدہ حنوط کرنے کے بعد سیندور میں رکھتے ہیں۔ یہ بہت سے مخفی اثرات کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اس کی اصل پہچان یہی ہے کہ گیدڑ جسم سے جدا ہونے کے باوجود زندہ رہتی ہے اور اسکے بال بھی مستقل بڑھتے رہتے ہیں۔سیندور اس سنگھی کو کیڑے لگنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھتا ہے۔علم سمیات اور عاملین کا ماننا ہے کہ گیدڑ سنگھی اپنے آپ میں ایک ایسا جیتا جاگتا طلسم ہے جس کیلئے کسی پڑھائی، چلے یا عمل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جس کے پاس اصلی گیدڑ سنگھی ہوگی اس کو ہر طرح سے مالی مدد حاصل ہوگی۔ زیورات یا نقدی کے سیف میں گیدڑ سنگھی رکھی جائے تو وہ مزید بڑھیں گے۔ دولت اور کاروبار میں ترقی ہوگی۔ویسے تو جو کہا گیا وہ بھی کافی حد تک ناقابل یقین ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ کئی واہیات تصورات بھی جڑ گئے : گمشدہ مال مل جایا کرےگا۔ غیب سے ہر طرح کی مدد اور خوشحالی حاصل ہوگی۔ دولت آنے کے ہر ذریعے میں کامیابی ہوگی۔ لاٹری، بانڈ، جوا، سٹہ، کاروبار میں کامیابی ہو گی۔ گیدڑ کی دس اقسام ہیں جن میں سام گیدڑ سنگھی،چھپا گیدڑ سنگھی،لِنگ گیدڑ سنگھی،کاما گیدڑ سنگھی،بیض گیدڑ سنگھی، سہام گیدڑ سنگھی،حبش گیدڑ سنگھی، ماتا گیدڑ سنگھی، موہنی گیدڑ سنگھی، ناکیلی گیدڑ سنگھی ہیں۔
سکول دور میں گرمیوں کی چھٹیاں میں اسی گاوں میں گزارا کرتا تھا۔ والد اور والدہ دونوں طرف سے اس گاوں میں قریبی عزیز داری ہے۔ ہفتہ قبل پتہ چلا کہ گاوں کے نوجوان کو گیدڑی نے کاٹ لیا۔ پہلی اطلاع کے مطابق وہ فصل کو پانی لگانے گیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ گیدڑی گاوں میں چلی آئی اور گھر کی دہلیز پر اس نے نوجوان پرحملہ کیا۔ کل ہی گاوں سے متوفی کا دوست کاشان آیا اس نے پوری تفصیل بتائی۔ کئی باتوں کا وہ خود بھی گواہ تھا۔یہ نوجوان35سالہ وقاص ہے۔ جس کی پانچ سال کی بیٹی اور دو سال کا بیٹا ہے۔ مغرب کے بعد یہ گھر سے نکلنے لگا۔ دروازہ کھولا تو سامنے گیدڑی کھڑی تھی۔ اسے وقاص نے زمین پر پاوں پٹختے ہوئے منہ سے در در آواز لگائی تو اس نے جھپٹ کرچہرے پر پنجا مار دیا۔ وقاص نے اسے ہاتھ سے دھکا دیا تو بازو پرکاٹ لیا۔ وقاص اسی وقت گاوں کے ڈاکٹر کے پاس چلا گیا جس نے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ اگلے دن اس نے قصبے میں جا کر ٹیٹنس کا ٹیکہ لگوایا۔ جو کتے یا کسی جانور کے کاٹنے کا علاج نہیں ہے۔ تین چار روز بعد اسے بخار ہوا اور ساتھ ہی عجب علامات ظاہر ہونے لگیں ‘ روشنی سے چڑ، پانی سے خوف وغیرہ۔
اسے فیصل آباد میں الائیڈ ہسپتال لے جایا گیا۔اس کی پوری کیئر کی گئی۔ مگر نہ صرف کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ مرض بڑھتا چلا گیا۔جسم کا نوے فیصد حصہ زہرکے زیر اثرآگیاتو لاہور لے جانے کا مشورہ دیا گیا۔ لاہور میں وقاص کودو تین ہسپتالوں میں لے جایا گیا۔ کسی ایک ہسپتال کے ڈاکٹرزاور عملے کی طرف سے سستی اور کوتاہی نہیں کی گئی مگر اثر ناقابل کنٹرول حد تک پھیل چکا تھا۔ اسے گھر بھجوا دیا گیا۔ وقاص کو اپنے انجام اور بیماری کی شدت کا اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ آخری دم تک حوصلے میں رہا۔ اس کا بیٹا باپ کی گود میں بیٹھنے کیلئے تڑپتا رہا مگرباپ مجبور تھا۔ وہ حال احوال پوچھنے کیلئے آنے والوں کو بھی کہتا تھا کہ مجھ سے دور ہو کے بیٹھیں۔رات کو وقاص کی موت ہوگئی۔ گاوں میں اسکی بہت اچھی شہرت تھی۔اسکے گھر والے اس پر جان چھڑکتے تھے۔اس کا علاج کرانے کی انہوں نے مقدور بھر اورہر ممکن کوشش کی۔ بتانے والوں سے پوچھا کہ آپ گیدڑی کے کاٹنے کی بات کرتے ہیں‘ گیدڑ بھی تو کاٹ سکتا ہے۔ بتایا گیا کہ گیدڑ انسان کو نہیں کاٹتا صرف گیڈری ہی اس طرح حملہ آور ہوتی ہے۔
کاشان کو دس سال قبل باولے کتے نے کاٹ لیا تھا۔ اس نے بلاتاخیر ویکسی نیشن کرالی۔ کاشان کا کہنا ہے کہ کتے اور گیدڑ وغیرہ سانپوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ مخصوص زہر والا سانپ یا جانور کھا لیں تو باولے ہو جاتے ہیں۔ باولے کتے کا کاٹا فرد زہر پھیلنے پر دوسرے فرد کو کاٹ لے تو اس میں زہر کا اثر زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔
وقاص کی موت پر لوگ فاتحہ کیلئے آ رہے ہیں۔ ان میں اردگرد کے دیہات سے آنیوالے بھی شامل ہیں۔ انکی زبانی معلوم ہوا کہ اس سے پہلے بھی گیدڑیوں کی ”دیدہ دلیری“ سے دوا موات ہو چکی ہیں۔ میرے اپنے گاوں میں اسی ہفتے حمزہ اور آصف یہ دو بھائی رات کو فصل کو پانی لگانے گئے انہوں نے دو گیدڑوں کو دیکھا ان کو دبکا لگایا۔مگر وہ اپنی جگہ کھڑے رہے تو یہ وہاں سے کھسک لیے۔ پہلے ایسا کرنے پرگیدڑ بھاگ جایا کرتے تھے۔گیدڑ واقعی اب خطرہ بن رہے ہیں۔دیہات کے لوگ محتاط رہیں۔گیدڑیوں اور گیدڑوں کے بھیڑیا بننے سے پہلے انکے خاتمے کیلئے سر گرم ہو جائیں۔حکومت کی طرف سے بھی اس معاملے پر فوکس کرتے ہوئے ہسپتالوں میں مریض کے کسی بھی سٹیج پرعلاج کو ممکن بنایا جائے۔

مزیدخبریں