چیف جسٹس کے تقرر کے عالمی معیارات

اسلام کے ظہور سے قبل، یونانی اور رومی تہذیبوں سمیت کئی قدیم تہذیبوں میں قانونی شخصیات کے انتخاب میں سیاسی وابستگی اور فکری قابلیت کو اہمیت دی جاتی تھی۔ قدیم یونان میں، عدالتی عہدے اکثر 500 تجربہ کار شہریوں کے ذریعے پر کیے جاتے تھے، جنہیں قرعہ اندازی کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا۔ اس میں قانونی اہلیت کی بجائے کمیونٹی کی شمولیت پر زور دیا جاتا تھا۔ اسی طرح، قدیم روم میں قونصل یا پریٹر عدالتی فرائض سر انجام دیتے تھے، اور ان کا انتخاب زیادہ تر سیاسی اثر و رسوخ اور سماجی حیثیت کی بنیاد پر کیا جاتا تھا، نہ کہ قانونی مہارت پر۔مذہبی روایات نے بھی چیف جسٹس کے انتخاب میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہودیت میں سنہیڈرن، جو سب سے اعلیٰ عدالت تھی، معتبر ربانیوں پر مشتمل تھی جو مذہبی قانون کے ماہر تھے۔ اس عدالت کی قیادت کا معیار تورات اور تلمود کا گہرا علم، قانونی علمیت اور اخلاقی دیانت داری تھی۔ ہندو مت اور بدھ مت، جو قدیم ہندوستان میں حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے تھے، میں بھی ایسے نظام تھے جہاں مذہبی متون اور افراد کی اخلاقی حیثیت کو عدالتی تقرریوں میں اہم سمجھا جاتا تھا۔ ابتدائی عیسائی ریاستوں میں، کلیسائی رہنما اکثر عدالتی شخصیات کا کردار ادا کرتے تھے، اور ان کے انتخاب کا معیار پرہیزگاری اور چرچ کے عقائد کی پاسداری تھا۔
اسلام نے ایک منفرد عدالتی نظام متعارف کرایا، جس میں چیف جسٹس یا قاضی القضاة کا انتخاب قرآن، حدیث، اور شریعت کے علم کی بنیاد پر ہونا تھا۔ خلفائ، جو اسلامی سلطنتوں کے سیاسی اور مذہبی رہنما تھے، ایسے ججوں کا تقرر کرتے تھے جو اسلامی قانون کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔ ان سے نہ صرف قانونی مہارت بلکہ اعلیٰ اخلاقی کردار اور غیرجانبداری کی توقع کی جاتی تھی۔ قانونی اور روحانی بصیرت پر زور دیا جاتا تھا، اور امام ابو حنیفہ جیسے علماءنے چیف جج کی اہلیت کے معیار کو قائم کیا۔ اسلامی خلافتوں میں یہ اصول ارتقاءپذیر ہوئے، لیکن شریعت کا علم چیف جسٹس کے انتخاب کے عمل میں مرکزی حیثیت رکھتا رہا۔
عثمانی سلطنت میں، مفتی استنبول یا شیخ الاسلام کو اسلامی فقہ میں مہارت کی بنیاد پر سب سے اعلیٰ قانونی اتھارٹی کے طور پر منتخب کیا جاتا تھا۔ مغلیہ سلطنت میں، بادشاہ اکثر اپنے چیف قاضی کا تقرر خطے کے سب سے معزز اسلامی علماءمیں سے کرتے تھے، حالانکہ سیاسی وفاداری بھی انتخاب میں م¶ثر ہوتی تھی۔
جدید دور میں، مختلف ممالک نے اپنے چیف جسٹس کی تقرری کے منفرد طریقے اپنائے ہیں۔ امریکہ میں، صدر چیف جسٹس کو نامزد کرتا ہے اور سینیٹ اس تقرری کی توثیق کرتی ہے۔ برطانیہ، جس کی قانونی روایت بہت پرانی ہے، چیف جسٹس کی تقرری ایک آزاد کمیشن کے ذریعے کرتا ہے جو قانونی تجربے، مہارت، اور عدلیہ کی قیادت کرنے کی صلاحیت کا جائزہ لیتا ہے۔
پاکستان میں 26ویں آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے معیار میں تبدیلی آئی ہے، جس سے روایتی سینیارٹی پر مبنی نظام سے ایک زیادہ میرٹ پر مبنی فریم ورک کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ نئی شقوں کے تحت، چیف جسٹس کا تقرر اب سپریم کورٹ کے اندر سینیارٹی کی بنیاد پر خود بخود نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے، ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی امیدواروں کی عدالتی صلاحیت، قانونی مہارت، قیادت کی صلاحیتوں، اور عدلیہ میں مجموعی خدمات کا جائزہ لیتی ہے۔ نئے معیار کا مقصد یہ ہے کہ منتخب ہونے والے چیف جسٹس کے پاس جدید قانونی چیلنجوں سے نمٹنے اور انصاف کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بصیرت، انتظامی مہارت، اور تجربہ موجود ہو۔
جرمنی میں، وفاقی آئینی عدالت اپنے ارکان میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرتی ہے، جس میں سیاسی جماعتیں تقرری کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ فرانسیسی عدلیہ، اگرچہ قانونی لحاظ سے مشابہت رکھتی ہے، حکومت کی زیادہ شمولیت رکھتی ہے، اور صدر چیف جسٹس کی تقرری میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ چین کا چیف جسٹس نیشنل پیپلز کانگریس کے ذریعے مقرر کیا جاتا ہے، جو ملک کی مرکزیت پسند حکومت اور عدالتی امور پر کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول کی عکاسی کرتا ہے۔
بھارت میں، چیف جسٹس کا انتخاب سینیارٹی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، جس میں موجودہ چیف جسٹس اور سینئر ججز اپنے جانشین کی سفارش کرتے ہیں۔ جاپان، جس کا عدالتی نظام مخلوط ہے، میں چیف جسٹس کا تقرر شہنشاہ کرتا ہے، اصل فیصلہ وزیر اعظم اور کابینہ کرتی ہے۔ روس کا چیف جسٹس صدر نامزد کرتا ہے اور فیڈریشن کونسل اس کی توثیق کرتی ہے،۔
اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب میں چیف جسٹس کے انتخاب کے معیار اسلامی قانون پر مبنی ہوتے ہیں۔ بادشاہ چیف جسٹس کو علماءکی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر مقرر کرتا ہے، اور اسلامی فقہ کے علم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ قطر میں بھی اسلامی قانون اور ریاستی مفادات کے امتزاج سے عدالتی تقرریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ ایران میں چیف جسٹس کا تقرر رہبرِ اعلیٰ کرتے ہیں، جو ملک کے مذہبی اور سیاسی اصولوں سے مطابقت کو یقینی بناتا ہے۔آسٹریلیا میں، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر گورنر جنرل وزیر اعظم کی سفارش پر کرتا ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا، جو دو مسلم اکثریتی ممالک ہیں، چیف جسٹس کی تقرری میں اسلامی اصولوں اور جدید قانونی فریم ورک دونوں کو شامل کرتے ہیں۔ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ، اور سویڈن میں چیف جسٹس کے عہدے پر تقرریاں ایک بہت ہی میرٹ پر مبنی عمل کے تحت ہوتی ہیں، جس میں قانونی مہارت، آزادی، اور سینیارٹی پر زور دیا جاتا ہے۔ عدالتی کونسلیں یا کمیشن نامزدگیوں کو سنبھالتے ہیں، 
سنگاپور میں، صدر چیف جسٹس کو وزیر اعظم کے مشورے پر مقرر کرتا ہے، جس میں قانونی تجربہ اور سیاسی ہم آہنگی کا توازن ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ نیدرلینڈز اور سوئٹزرلینڈ دونوں میں آزاد عدالتی تقرریوں کے مضبوط عمل موجود ہیں، جن میں قانونی اہلیت اور عدالتی تجربے پر زور دیا جاتا ہے۔ اسپین اور اٹلی میں چیف جسٹس کی تقرری کے عمل پر سیاسی عوامل کا اثر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کے انتخاب کے معیارات دنیا بھر میں مختلف ہیں، لیکن عام طور پر قانونی مہارت، قیادت، اور بعض اوقات سیاسی ہم آہنگی پر زور دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس یا قاضی کے تقرر کیلئے بہترین معیار قانونی بصیرت، اخلاقی دیانت داری، اور قانون کی غیر جانبدارانہ تشریح اور اطلاق کی صلاحیت کا توازن ہونا چاہیے، قطع نظر سیاسی، مذہبی یا ذاتی تعصبات کے۔ ہر نظام کے اپنے فوائد ہیں، لیکن حتمی مقصد ہمیشہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہونا چاہیے، تاکہ سب کے لیے انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔

ای پیپر دی نیشن