امریکی عسکری جریدے یونی پاتھ نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انکی پیشہ ورانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ سینٹ کام جریدے کے مطابق جنرل سید عاصم منیر کو ایسے لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائیگا جن کا اولین عزم پاکستان کی سلامتی‘ استحکام اور خوشحالی ہے۔ اس سلسلہ میں جریدے میں شائع کئے گئے مضمون میں پاکستان کے آرمی چیف کی قیادت‘ فوجی پس منظر اور انسداد دہشت گردی کیلئے کوششوں کو سراہا گیا اور آرمی چیف کے دہشت گردی کے بارے میں ٹھوس موقف‘ ففتھ جنریشن وار فیئر‘ غیرملکی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت اور سماجی و اقتصادی اقدامات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ جنرل سید عاصم منیر نومبر 2022ءمیں کمان سنبھالنے کے بعد سے اب تک پاکستان کی سلامتی‘ استحکام اور خوشحالی کیلئے کوشاں ہیں۔ انکی قیادت میں شدت پسند گروپوں (فتنہ الخوارج) کیخلاف وسیع فوجی اپریشن ہوئے ہیں جن میں انٹیلی جنس پر مبنی 22 ہزار 409 اپریشن شامل ہیں جن کے نتیجہ میں 396 دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا۔ مضمون کے مطابق جنرل سید عاصم منیر نے واضح کیا ہے کہ دہشت گردوں کو ریاستی رٹ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہوگا۔ پاکستان اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے دہشت گردوں کے ہر نیٹ ورک کو ختم کریگا۔ جریدے نے اقلیتوں کے تحفظ اور سماجی بہتری کیلئے پاکستان کے آرمی چیف کے اٹھائے گئے اقدامات کی بھی ستائش کی۔
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے امریکہ میں کانگرس کے 60 ارکان کی جانب سے پاکستان کی ایک جماعت کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی کیلئے امریکی صدر جوبائیڈن کو بھجوائے گئے مراسلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے باور کرایا کہ ایسے خطوط پاکستان امریکہ تعلقات اور باہمی احترام کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتے جبکہ یہ سفارتی آداب کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں امریکی ارکان کانگرس کے اس مراسلہ کے مندرجات کو اجاگر کیا اور کہا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ سفارتی آداب سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے دفتر انسانی حقوق کا بیان اور سوشل میڈیا رپورٹس غلط کمیونیکیشن کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کا مضبوط حامی ہے اور اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ یہ چارٹر بین الریاستی حل فراہم کرتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان ایٹمی قوت کا حامل ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے جو اپنی آزادی اور خودمختاری پر نہ کوئی حرف آنے دے سکتا ہے اور نہ ہی یواین چارٹر کی روشنی میں کسی دوسرے ملک کی آزادی اور خودمختاری میں کسی قسم کی مداخلت اس کا شیوہ ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک اسکے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کبھی کبھار کشیدگی کا شکار ہونے کے باوجود استوار ہیں اور پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ امریکہ کے ساتھ اچھے مراسم کو ترجیح دی ہے اور اس ناطے سے پاکستان کو بین الاقوامی گروپ بندی میں امریکہ کا اتحادی ہونے کے کھاتے میں ہی ڈالا جاتا ہے۔ 2001ءمیں امریکی نائن الیون کے بعد پاک امریکہ تعلقات دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کی صورت میں اجاگر ہوئے۔ اس جنگ میں پاکستان نے افغانستان میں نیٹو افواج کی لاجسٹک معاونت کیلئے نہ صرف اپنے چار ایئربیس امریکہ کے حوالے کئے بلکہ اس جنگ میں اسکی ہر قسم کی معاونت کی جس کے ردعمل میں افغان طالبان اور دوسرے انتہاءپسند گروپوں کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جو آج کے دن تک جاری ہے اور پاکستان امریکی مفادات کی اس جنگ میں اپنی سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد جوانوں اور افسران سمیت 80 ہزار سے زیادہ شہریوں کی جانوں کی قربانی دے چکا ہے جبکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکسان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ امریکی سینٹ کام کے جریدے میں اسی بنیاد پر پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور پاکستان کی سلامتی‘ استحکام اور خوشحالی کیلئے انکی کاوشوں کی ستائش کی گئی ہے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں انکے شاندار اور جاندار کردار کو سراہا گیا ہے۔
بے شک پاکستان کی عسکری قیادتوں نے دفاع وطن کیلئے سرحدوں پر بیرونی جارحیت کی روک تھام کے ساتھ ساتھ اندرون ملک کسی بھی انتشار و خلفشار پر قابو پانے کیلئے بھی متعلقہ سول اتھارٹیز کی بھرپور معاونت کی ہے۔ جنرل سید عاصم منیر کا اس حوالے سے فعال کردار اس لئے بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے دہشت گردی پر قابو پانے اور ملک کی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کیلئے بھی سول حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جس کے نتیجہ میں آج ملک میں امن و استحکام کی فضا استوار ہو رہی ہے اور ملکی معیشت ترقی کے سفر کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ یقیناً اسی ناطے سے امریکی عسکری جریدے نے پاکستان کے آرمی چیف کی خدمات کو اجاگر کیا ہے۔
بدقسمتی سے ایک امریکی لابی کی جانب سے پاکستان میں انتشار و فساد کے ایجنڈے پر گامزن ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے بغیر کسی جواز کے سپورٹ کیا جا رہا ہے جس کیلئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا سہارا لیا جاتا ہے جبکہ اس امریکی لابی کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق بھارتی کارروائیوں اور فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں انسانی جسموں کے لاشے بنتے اور ٹکڑے بکھرتے دیکھ کر بھی یواین چارٹر کی بنیاد پر نوٹس لینے کا کبھی خیال نہیں آتا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ عمران خان کی جانب سے سائفر لہراتے ہوئے ”ایبسولیوٹلی ناٹ“ کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی امریکہ مخالف سیاست کا تاثر دیا جاتا ہے جبکہ اسی امریکہ کی ایک لابی پاکستان کی سلامتی‘ خوشحالی اور سیاسی و اقتصادی استحکام کے خلاف عمران خان اور انکی پارٹی کی سیاست اور اقدامات کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے پاکستان کے سسٹم کیخلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی جو دہرے امریکی معیار کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تناظر میں عمران خان اور انکی پارٹی کے دیگر ارکان کی ملک دشمنی پر مبنی کارروائیوں پر انکی پاکستان کے مروجہ قوانین اور عدالتی نظام کے تحت گرفت ہونے پر بھی شور اٹھایا جاتا ہے اور پاکستان کے سیاسی اور عدالتی نظام کو رگیدا جاتا ہے۔ اسی امریکی لابی نے 8 فروری کے انتخابات کو متنازعہ بنانے کیلئے اپنے مذموم پراپیگنڈے کی انتہاءکی اور امریکی کانگرس کو پاکستان کیخلاف اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کیلئے اکسانے کی کوشش کی جبکہ عساکر پاکستان کیخلاف پی ٹی آئی کے 9 مئی کے واقعات پر بھی یہ امریکی لابی اس پارٹی کے قائد کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ اب 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف محاذ گرمانے کی بھی اسی امریکی لابی نے سازش کی اور عمران خان کی ماورائے قانون رہائی کیلئے امریکی صدر کو مراسلہ بھجوایا ہے جو پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریحاً مداخلت کے مترادف ہے۔ امریکی صدر کو تو امریکی کانگرس کے 60 ارکان کی اس حرکت کا خود نوٹس لینا چاہیے اور پاکستان کی آزادی و خودمختاری کے احترام کو ملحوظ خاطر کھنے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ اس امریکی لابی کو سوچنا چاہیے کہ آیا پاکستان نے امریکی سیاسی‘ عدالتی نظام کے حوالے سے کبھی امریکہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ یہ رسم چل نکلی تو پھر یواین چارٹر کا جیو اور جینے دو کا فلسفہ ویسے ہی غارت ہو جائیگا جس کا نتیجہ اقوام متحدہ کے لیگ آف دی نیشنز والے انجام سے دوچار ہونے کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔