لیاقت بلوچ
اسلام کی سب سے پہلی وحی اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے۔قرآنِ مجید کی سورۃ العلق (آیت 1 تا 5) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑا کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت کے ذریعے اخلاق ، امانت و دیانت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سربلندی اور ترقی حاصل کی لیکن مسلمان جوں جوں تعلیم و تعلم سے دور ہوتے گئے، وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے اور دیگر قومیں اْن پر غالب آگئیں۔ اسلامی فلسفہ تعلیم یہی ہے کہ لوگوںکی ذہنی ، علمی اور دماغی صلاحیتوں کو اعلیٰ انسانی اقدار پر استوار کیا جائے، تاکہ معاشرے میں نیکی رائج ہو، کسی کی حق تلفی و دل آزاری نہ ہو، باہمی احترام و یگانگت پر مبنی معاشرہ قائم ہو اور خالق ِ کائنات کی رضا اور فکرِ آخرت کو پیش ِنظر رکھ کر مقصدِ زندگی کا تعین کیا جائے۔
پاکستان میں نظامِ تعلیم کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ یہ ہے ریاستی سطح پر دو قومی نظریہ، قیامِ پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں یکساں نظام و نصابِ تعلیم کی بجائے نظام و نصابِ تعلیم کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل آج کا نوجوان بنیادی اسلامی تعلیمات اور اقدار سے عاری اور عملی زندگی میں اپنے مقصدِ حیات سے لاعلم رہتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب محض اسکول، کالج، یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ تہذیب و تمدن ، اخلاق و کردار کی بلندی پر فائز ہونا ہی دراصل حصولِ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے۔ آج کا دور ڈیجیٹل میڈیا، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دورہے ، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ تعلیمی اداروں میں بنیادی عصری علوم ،ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، لاء ، میڈیکل اور دیگر جدید علوم و فنون کی تعلیم آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔ یہ سارے جدید علوم و فنون تو ضروری ہیں ہی البتہ اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے دینی علوم ، احکاماتِ الٰہیہ ، سیرتِ رسولؐ ، صحابہ کرامؓ اور یگر مشاہیرِ اسلام کی زندگی اور کارناموں سے خاطر خواہ آگاہی بھی ضروری ہے۔
ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تو دوسری طرف بے روزگاری کے باعث لوگ اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے سے قاصر ہیں۔ تعلیم کے لیے مختص حکومتی بجٹ میں مسلسل کمی، بلکہ اب تو پنجاب، سندھ حکومت کی طرف سے سرکاری تعلیمی اداروں کی نج کاری کا اعلان کیا جاچکا ہے جس پر عملدرآمد جاری اور جس کے خلاف ماہرینِ تعلیم، اساتذہ کرام اور والدین سراپا احتجاج ہیں۔ دوسری طرف ملک میں رائج الوقت عصری نظامِ تعلیم کی زبوں حالی اور اس جانب حکومت کی عدم توجہی کا یہ حال ہے کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی 2021-22ء کی تعلیمی شماریات رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں سے پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ، سندھ میں 76 لاکھ، خیبر پختون خوا میں 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ ، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 80 ہزار بچے اسکول نہیں جارہے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں سکول جانے کی عمر کے اوسطاً 39 فیصد بچے اِس وقت اسکول سے باہر ہیں،بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی عالمی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے، یہ ایک الارمنگ صورتِ حال ہے۔ حکومت ہر بار تعلیمی ایمرجنسی کے اعلانات تو کرتی ہے لیکن نتائج ہمیشہ کی طرف صفر ہی رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کو ترجیحِ اول بنائیں ، حقیقی معنوں میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے مانیٹرنگ اینڈ ایویلو ایشن کے مؤثر نظام کے ذریعے معیارِ تعلیم اور تعلیمی انرولمنٹ میں اضافے کو یقینی بنائے۔
ملک میں شرحِ خواندگی میں اضافہ اور معیارتعلیم کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قابل اساتذہ ، معیاری نصاب ، تعلیمی ماحول ، تحقیق، معاشرتی سپورٹ ،ریاستی عزم ،طلبا کا ذوق و شوق جیسے عوامل پر توجہ سے ہم شرحِ خواندگی میں اضافہ کیساتھ ساتھ معیارِ تعلیم میں خاطر خواہ بہتری لاسکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے، جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔ ملک بھر میں آئینِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے۔قومی تعلیمی پالیسی کا باقاعدہ اعلان کرکے تعلیمی ایمرجنسی کے تحت آئندہ 5، 10 سالہ اہداف کا واضح تعین کیا جائے۔تعلیم کو قیامِ پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کے پیشِ نظر پرائمری سطح سے ہی قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ سیاسی مداخلت سے پاک اور نظامِ تعلیم کے مؤثر اور غیرجانبدارانہ انسپکشن پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔
تعلیمی ایمرجنسی وقت کی اہم ضرورت
Oct 26, 2024