42 ہزار نہیں 2 لاکھ 

یوں سال کی اسیری سے چھوٹتے ہی پی ٹی آئی کی مرشدانی جی سیدھا پشاور گئیں اور گنڈاپور ہائوس میں جا براجیں جہاں وہ انیکسی میں قیام کریں گی۔ ان کی آمد سے گنڈا پور گروپ مضبوط ہو گا۔ گنڈاپور کی اصل طاقت ’کیفے سندیسہ‘ ہے اور اسی بنیاد پر ان کے گروپ کو کیفے سندیسہ گروپ بھی کہا جاتا ہے۔ اس گروپ کی طاقت کا سرچشمہ وہ روحانیت ہے کیفے سندیسہ کی چائے جس سے لبریز رہتی ہے۔ کیفے والے خصوصی سندیسہ بھیج کر جسے بھی چائے کے کپ پر بلائیں، وہ اس روحانیت کا اسیر ہو جاتا ہے۔ گنڈاپور دو بار یہ چائے پی چکے ہیں اور مرشدانی جی اپنی گرفتاری کے موقع پر ایک بار اس چائے سے کیف اندوز ہو چکی ہیں۔ 
پی ٹی آئی میں بہت سے دھڑے ہیں لیکن مؤثر ترین دھڑا یہی کیفے سندیسہ گروپ ہے جس لانگ مارچ کو انجام تک پہنچانا مشکل ہو، اسے اک خوبصورت چائنہ موڑ دے کر چھوڑنے کا اچھا کام سندیسہ گروپ کے ذمے ہے۔ 
مرشد کی خواہران بھی رہا ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے طور پر ایک گروپ کی قیادت کر رہی ہیں۔ بنی گالہ کے ’مرشد ہائوس‘ پر انھی کا کنٹرول ہے۔ تمام گارڈ انھی خواہران کے لگائے ہوئے ہیں۔ پچھلے مہینوں میں گنڈاپور نے خواہران مذکورہ کی ہدایت پر کروڑہا روپے لگا کر بنی گالہ کے مرشد خانے کی تزئین و آرائش کرائی تھی۔ گنڈاپور اپنے گروپ کے سربراہ ہیں جس میں اب مرشدانی جی بھی شامل ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خواہر گروپ کے دانہ پانی کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ مرشد کی بہنیں جو ہوئیں۔ 
پارٹی میں اور بھی بہت سے گروپ ہیں۔ کچھ خوابیدہ ہیں، کچھ بہت خوابیدہ ہیں اور کچھ حد سے زیادہ خوابیدہ ہیں۔ ایک گوہر خان گروپ ہے، دوسرا سلمان اکرم راجہ گروپ ہے، تیسرا پنجوتھہ برادران کا ہے۔ چوتھا مراد نصیر کا، پانچواں اعظم سواتی (گائے والے) کا۔ یہ سب خوابیدہ گروپ ہیں، ایک پوشیدہ گروپ حماد اظہر کا ہے۔ کچھ اور گروپ بھی ہیں۔ 
ایک بوسیدہ گروپ پائیوڈین گروپ کے نام سے معروف ہے۔ پائیوڈین گروپ یعنی چودھری پرویز الٰہی کا۔ وجہ تسمیہ اس گروپ کے نام کی یہ ہے کہ دو برس قبل پنجاب اسمبلی میں دنگا ہوا تھا جس میں پرویز الٰہی قبلہ کا بازو ٹوٹ گیا تھا۔ بازو کی ہڈی میں کئی جگہ کئی فریکچر آ گئے تھے۔ چودھری صاحب نے پائیوڈین لگا کر پٹی باندھ لی، اگلی صبح بازو کی ہیڈ جڑ گئی اور فریکچر جڑ گئے۔ اس مناسبت سے بعض لوگ پائیوڈین گروپ کہنے لگے، بعض نے اسے معجزہ گروپ کا نام بھی دیا۔ پی ٹی آئی معجزات والی پارٹی ہے۔ وزیر آباد میں مشہور عالم قاتلانہ حملے کا واقعہ ہوا۔ گولیوں کی بارش ہوئی۔ بہت سی گولیاں سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کے پاجامے میں جا گھسیں اور وہیں پناہ گزین ہو گئیں۔ بڑی مشکل سے پاجامہ جھاڑ کر انھیں بے دخل کیا گیا۔ اگرچہ اس معجزے پر اہل نظر میں اختلاف رائے بھی پیدا ہوا۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ عمران اسماعیل کی کرامت تھی کہ اتنی گولیاں پاجامے پر روک لیں، دوسرے کہتے ہیں کہ نہیں، یہ مرشد کا فیضان نظر تھا ورنہ عمران اسماعیل کیا، ان کا پاجامہ کیا۔ 
____________
اطلاع ہے کہ مرشد کی قید یونہی جاری رہے گی، اس بارے میں ریاستی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی البتہ خود مرشد کی کیفیت میں بدلائو کی خبر اہل نظر نے دی ہے۔ مثال کے طور پر کل ان سے ان کے وکلاء کی ٹیم ملی دوران گفتگو مرشد نے شکوے پر مبنی دو غزلہ تو پڑھا لیکن دھرنے کی نئی تاریخ نہیں دی۔ لوگ سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے، اس کا غصہ بھی نہیں اتارا۔ پوچھا ، ترمیم ہو گئی، آہ سرد بھر کر وکیلوں نے کہا، ہو گئی، اس پر مرشد نے آہ سرد تر بھری اور خاموش رہے۔ پھر پوچھا، منصور چیف لگ گئے، بتایا گیا نہیں کوئی اور صاحب آ گئے۔ اس مرتبہ آہ بھرے بغیر ہی خاموش ہو گئے۔ 
وکلاء نے باہر آ کر احتجاج کی نئی تاریخ وغیرہ کی کوئی بات نہیں کی جس پر پی ٹی آئی کے اینکر پرسن برادری پر حسرت و یاس کا کہرا جم گیا۔ 
____________
جماعت اسلامی کے امیر 26 ویں ترمیم منظور ہونے پر بہت ناراض ہیں۔ جتنے اداس مرشد ہیں، اس سے بھی زیادہ اداس۔ مغرب کی تمام جمہوریتوں میں ججوں کی تعیناتی پارلیمنٹ کرتی ہے، اس کی منظوری سے یہ تعیناتیاں ہوتی ہیں، یعنی اگر کوئی اور ادارہ یہ تعیناتیاں کرے اور پارلیمانی کمیٹی کسی جج کے نام پر اعتراض لگا دے تو وہ صاحب جج بن ہی نہیں سکتے۔ یہی اختیار اب پاکستان کی پارلیمنٹ کے پاس آ گیا ہے تو قبلہ نعیم الرحمن اسے قبول نہیں کر رہے۔ 
بہرحال، نعیم الرحمن کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ سخت اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اچھی بات ہے لیکن اس سے خیال آیا کہ ایسا ہے تو انھیں آگے بڑھ کر اس گروپ کو جماعت اسلامی میں واپس لے لینا چاہیے جو کئی عشرے قبل قاضی حسین احمد مرحوم کی ’پرواسٹیبلشمنٹ‘ پالیسی سے ناراض ہو کر جماعت سے الگ ہو گیا تھا اور ’تحریک اسلامی‘ کے نام سے، خصوصاً کراچی میں سرگرم ہو گیا تھا۔ اس میں جماعت کے بہت سے قدیمی ارکان شامل تھے جن کی قیادت جماعت اسلامی کے سب سے بڑے تھنک ٹینک نعیم صدیقی مرحوم کر رہے تھے۔ 
اس گروپ کا جریدہ ’نشور‘ کے نام سے نکلتا ہے جس کے مندرجات کو دیکھ کر پرانی جماعت اسلامی یاد آ جاتی ہے، پرانی یعنی قبل از سراج الحق، قبل از قاضی والی۔ قاضی حسین احمد مرحوم اس وقت کے اسٹیبلشمنٹی صدر غلام اسحاق کے، پھر جنرل مشرف کے بہت زیادہ قریب چلے گئے تھے۔ اطلاع ہے کہ خود جماعت اسلامی کے بعض احباب بھی ’نشور‘ پڑھتے پائے گئے ہیں۔ 
اب وہ معاملہ نہیں رہا تو نعیم الرحمن صاحب جتنی گرم جوشی سے پی ٹی آئی کی قیادت سے ملتے ہیں، اس سے آدھی گرم جوشی تحریک اسلامی والوں سے برتیں تو ، خیال ہے کہ، یہ بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن مین سٹریم کے سینہ چاکانِ چمن سے پھر آ ملیں گے۔ 
____________
ترکی کے صدر طیب اردگان کردوں کے بہت خلاف ہیں۔ اپنے ہاں کے کردوں سے تو وہ نمٹتے ہی رہتے ہیں، اب آگے بڑھ کر انھوں نے شام اور عراق کی کرد آبادیوں پر زبردست بمباری شروع کر دی ہے۔ سینکڑوں کرد پہلے ہی ہلے میں ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ ان گنت بستیاں خاکستر ہو گئیں۔ 
اس بمبارانہ مہم جوئی میں تیل بہت خرچ ہو گا۔ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ برادر ملک اسرائیل کو تیل کی سپلائی میں کمی آ جائے۔ کل ہی اس مظلوم ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بیان داغا ہے کہ ہماری جنگ غزہ کے سفاک لوگوں سے ہے۔ غزہ کے سفاک لوگوں کا صفایا کرنے کی مہم کہیں ادھوری نہ رہ جائے، ترکی کو اس لیے کردوں کے خلاف جنگ ملتوی کر دینی چاہیے۔ 
ادھر آسٹریلیا کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ غزہ میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ چند ہفتے کے لیے مڈل ایسٹ کے ذرائع کے مطابق یہ تعداد پونے دو لاکھ تھی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار 42 ہزار ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن