اسلام آباد (این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے رجسٹرار کو مراسلے کے ذریعے آگاہ کردیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مراسلے میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس کو ان کی خدمات پر ان کے اعزاز میں ریفرنس دیا جاتا ہے، ماضی میں جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اختیارات کا غلط استعمال کیا تو ان کے ریفرنس میں بھی شرکت سے انکار کیا، آج بھی میں نے انہی وجوہات کی بنا پر ریفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ آج وجوہات زیادہ پریشان کن ہیں۔ چیف جسٹس کا بنیادی فرض شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں بیرونی مداخلت روکنے کے بجائے اس کے دروازے کھولے۔ مداخلت روکنے کے لیے جذبہ دکھایا نہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کو کمزور کرنے اور اپنے قوانین بنانے کو مناسب گراؤنڈ دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر رکھے عدلیہ پر بیرونی اثرات اور دبائو سے لاتعلق رہے، انہوں نے عدلیہ میں مداخلت کے دروازے کھول دیے، عدلیہ کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا۔ عدلیہ کا دفاع کرنے کی ہمت نہیں دکھائی، وہ عدالتی رواداری و ہم آہنگی کے لیے لازمی احترام قائم کرنے میں ناکام رہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مداخلت پر ملی بھگت کے مرتکب رہے، چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر اور عزت نہیں، انہوں نے شرمناک انداز میں کہا کہ فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں الزام عائد کیا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی، ججز میں اس تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے۔ ریفرنس میں شرکت اور ایسے دور کا جشن منانا پیغام دے گا کہ چیف جسٹس اپنے ادارے کو نیچا کر سکتا ہے، ادارے کو نیچا کرنے کے باوجود سمجھا جائے گا کہ ایسا چیف جسٹس عدلیہ کے لیے معزز خدمت گار رہا ہے، میں ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کر سکتا۔
جسٹس فائز نے شرمناک انداز میں کہا فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے، بیرونی مداخلت کے دروازے کھولے: جسٹس منصور
Oct 26, 2024