امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف تازہ ترین دھمکیاں جنہیں مختلف تبصرہ نگاروں نے وارننگ‘ الٹی میٹم اور اعلان جنگ تک کا نام دیا ہے۔ اس لئے کسی اچنبھے کی بات نہیں سمجھنا چاہئے۔ حیرت کی بات یہ ہے گزشتہ کئی دیہائیوں سے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت بار بار اسی سوراخ میں اپنی انگلی ڈالتی ہے جہاں سے ہر بار ڈسے جانے کے باوجود کوئی سبق سیکھنے پر غور نہیں کرتی۔ ایوب خان واشنگٹن کے ہر اشارے پر طرح طرح کے فوجی معاہدے کرنے کے باوجود بالآخر 1965ءکی جنگ کے بعد مجبور ہو کر \\\"friends no masters\\\" لکھنے پر مجبور ہوا اور اس کا انجام ہمارے لئے ایک سبق ہونا چاہئے تھا۔ ہم نے سقوط ڈھاکہ پاکستان کے دولخت ہونے سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار کے قومی المیہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح 1988ءمیں بہاولپور کے فضائی حادثہ میں جنرل ضیاالحق کا انجام ہمارے سامنے ہے جس میں نہ صرف صدر پاکستان بلکہ امریکن سفیر بھی اس ”حادثہ“ کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد سے لیکر آج تک سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان کے دوران اور اس کے بعد واشنگٹن کا اسلام آباد سے محبت و نفرت کا متواتر رنگ بدلتا رشتہ ہماری تاریخ کا ایک عبرتناک باب ہے اس لئے امریکی قیادت کے تازہ ترین بیانات جس میں ایڈمرل مولن چیئرمین چیف جائنٹ آف سٹاف لی آن پنیٹا وزیر دفاع ہیلری کلنٹن وزیر خارجہ اور ڈیوڈ پیٹریاس جو قبل ازیں افغانستان میں امریکی فوجوں کا کمانڈر تھا اور اب خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا سربراہ ہے کے علاوہ پاکستان میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی دھمکیاں بھی شامل ہیں ان سب کا لب لباب یہ ہے کہ اگر پاکستانی حکومت پاک فوج اور آئی ایس آئی نے امریکہ کی خواہش کی تکمیل میں شمالی وزیرستان اور دیگر نشان دہندہ مقامات پر حقانی نیٹ ورک اور طالبان و دیگر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فوری طور پر فوجی آپریشن کا آغاز نہ کیا تو امریکہ یکطرفہ طور پر ان ٹارگٹ کو اپنے ذرائع سے خود ہٹ کرے گا۔ اس لئے امریکی سٹرٹیجک مقاصد کا پورا ادراک حاصل کرنا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اعلیٰ ترین قومی مفاد کا ہر ممکنہ جارحیت کے خلاف دفاع کرنا ریاست کی سیاسی و فوجی قیادت کا آئینی فریضہ ہے جس کی پشت پناہی ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر تیاری کرنا 18 کروڑ مرد و زن بچے بوڑھے اور نوجوانوں پر لازم ہے۔ کیا افواج پاکستان نے اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے اپنے گھوڑے قرآنی حکم کے تحت پوری طرح تیاری کی حالت میں الرٹ رہنے کا احکام جاری کر دیئے ہیں۔ روایتی ہتھیاروں کے علاوہ ہمارے جدید ترین دفاعی اور Deterrent بعض جانے پہچانے اور خفیہ گھوڑوں کو چوکس رکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت کا یہ تازہ ترین بیان کہ وہ آنے والے کسی بھی مشکل وقت میں قوم کی امنگوں پر پورا اترنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ قوم کے حوصلہ کو بلند رکھنے کیلئے کافی ہے فوج کے چیف آف سٹاف نے ایڈمرل مائیک مولن کے الزامات کو غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے انہیں unfortunate قرار دیا ہے۔ افواج پاکستان کو اس سے زیادہ اپنی جنگ حکمت عملی اور مختلف آپشنز کا انکشاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا عندیہ ضرور دیا ہے لیکن اس اعلان کے انجام سے وزیراعظم خود اور پوری قوم پوری طرح آگاہ ہے۔ دنیا کے ساتویں بڑے ملک چوتھی بڑی فوج اور ایک جدید ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے لیس ملک کے وزیراعظم کو امریکی دھمکیوں کا جواب دینے کیلئے محض اے پی سی بلانے کے صرف عندیہ سے بہت آگے بڑھ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی جرات کا کم از مظاہرہ تو کرنا چاہئے تھا۔ صدر مملکت کو جو صدارت کے عہدہ کے حوالے سے فیڈریشن کے سربراہ بھی ہیں اور اس کے علاوہ سیاسی حکمران جماعت کے شریک چیئرمین ہونے کے ناطے ایک اور طاقتور عہدہ بھی رکھتے ہیں یعنی وہ افواج پاکستان کے کمانڈر ان چیف بھی ہیں۔ ان تمام حوالوں سے قوم منتظر ہے کہ وہ چند امریکی عہدیداروں کی دھمکیوں کا کس کراکے دار انداز میں جواب دیتے ہیں۔ آخر میں میں قائداعظم کے صرف 2 بیانات سے اس کالم کو ختم کرتا ہوں کہ ان میں موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے حکمت و دانش پر مبنی مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اکتوبر 1937ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ سیشن کے صدارتی خطاب میں آپ نے فرمایا:
\\\"I want to Musalmans to believe in themselves and take their destiny in their own hands. We want men of faith and resolution who have to courage and determination and who would fight single-handedly for their country, though at the moment the whole world may be against them. We must develop power and strngth till the Musalmans are fully organised and have acquired that power and strength which must come from the solidarity and the unity of the people.\\\"
23 جنوری 1948ءکو پاکستان نیوی کے جہاز HMPS دلاور کے تمام افسران اور دیگر عملے کو خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :
\\\"The weak and the defenceless in this imperfect world invite aggression from others. The best way in which we can serve the cause of peace is by removing the temptation from the path of those who think that we are weak and, therefore, they can bully or attack us.\\\"
ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع میں یک زبان ہو کر دفاع وطن کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا واضح اعلان پوری دنیا اور خصوصی طور پر اپنے ہمسایہ دوست ممالک چین‘ ایران‘ ترکی اور سعودی عرب کے خادم الحرمین شریفین تک پہنچانے کیلئے باہمی مشاورت کے فوری اقدامات کریں۔
وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا عندیہ ضرور دیا ہے لیکن اس اعلان کے انجام سے وزیراعظم خود اور پوری قوم پوری طرح آگاہ ہے۔ دنیا کے ساتویں بڑے ملک چوتھی بڑی فوج اور ایک جدید ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے لیس ملک کے وزیراعظم کو امریکی دھمکیوں کا جواب دینے کیلئے محض اے پی سی بلانے کے صرف عندیہ سے بہت آگے بڑھ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی جرات کا کم از مظاہرہ تو کرنا چاہئے تھا۔ صدر مملکت کو جو صدارت کے عہدہ کے حوالے سے فیڈریشن کے سربراہ بھی ہیں اور اس کے علاوہ سیاسی حکمران جماعت کے شریک چیئرمین ہونے کے ناطے ایک اور طاقتور عہدہ بھی رکھتے ہیں یعنی وہ افواج پاکستان کے کمانڈر ان چیف بھی ہیں۔ ان تمام حوالوں سے قوم منتظر ہے کہ وہ چند امریکی عہدیداروں کی دھمکیوں کا کس کراکے دار انداز میں جواب دیتے ہیں۔ آخر میں میں قائداعظم کے صرف 2 بیانات سے اس کالم کو ختم کرتا ہوں کہ ان میں موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے حکمت و دانش پر مبنی مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اکتوبر 1937ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ سیشن کے صدارتی خطاب میں آپ نے فرمایا:
\\\"I want to Musalmans to believe in themselves and take their destiny in their own hands. We want men of faith and resolution who have to courage and determination and who would fight single-handedly for their country, though at the moment the whole world may be against them. We must develop power and strngth till the Musalmans are fully organised and have acquired that power and strength which must come from the solidarity and the unity of the people.\\\"
23 جنوری 1948ءکو پاکستان نیوی کے جہاز HMPS دلاور کے تمام افسران اور دیگر عملے کو خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :
\\\"The weak and the defenceless in this imperfect world invite aggression from others. The best way in which we can serve the cause of peace is by removing the temptation from the path of those who think that we are weak and, therefore, they can bully or attack us.\\\"
ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دفاع میں یک زبان ہو کر دفاع وطن کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا واضح اعلان پوری دنیا اور خصوصی طور پر اپنے ہمسایہ دوست ممالک چین‘ ایران‘ ترکی اور سعودی عرب کے خادم الحرمین شریفین تک پہنچانے کیلئے باہمی مشاورت کے فوری اقدامات کریں۔