انسان خطا کا پتلا ہے، خدا جانے اس جملے کا مصنف کون ہے لیکن ہم جیسے بے شمار نااہلوں کو اس اہل بنا گیا کہ غلطی بھی کریں، اور بعد میں پُتلے بن کر خود کو سزا سے بچا لیں۔ انسان خطا کا پُتلا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلطی کر سکتا ہے کیونکہ وہ خطا سے پاک ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا۔ ہم اکثر مختلف کالم لکھتے ہیں کبھی فکاہیہ، کبھی سنجیدہ اور ہر دو میدانہائے تحریر میں کئی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ کبھی کوئی شعر غلط لکھ دیا، کبھی کوئی واقعہ درست نہ لکھا۔ کبھی کوئی اردو روزمرے کی غلطی کر بیٹھے، الغرض اس لحاظ سے غلطی کے پتلے ہی نہیں غلطیوں کے لات منات ہیں، مگر بتوں کو تو سزا نہیں ملتی پجاریوں کو ملے گی۔ اس لحاظ سے ہم غلطی کے مہان پتلے ہی بھلے، اللہ ہی کی ذات کثرت کو برداشت کر سکتی ہے۔ ہم اس کے ناقص بندے تو تھوڑے میں زیادہ پڑ جائے تو اپنے آپے میں نہیں رہ سکتے۔ اس لئے فاضل قارئین ایک پیشگی معافی نامہ ہمارے لئے تیار رکھا کریں البتہ یہ ضرور احساس کر لیا کریں کہ کیا ہماری تحریروں میں کوئی کام کی بات بھی ایک آدھ پائی جاتی ہے یا صرف کسی ایک ہی غلطی پر ہم سے دس روپے وصول کر لئے جاتے ہیں اور ان کی جلی کٹی دلآویز سخنوری کے کرشمے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ انسانی حافظہ اپنی لائبریری میں کتابیں غلط جگہ پر بھی رکھ بیٹھتا ہے بہرحال ہمارے قارئین کرام پھر بھی بڑے کشادہ دل ہیں کہ چھوڑ دیتے ہیں، حال ہی میں ایک قاری سے ہم نے اس حدیث کے ذریعے نجات پائی کہ خذما صفادع ماکدر جو صاف ہے وہ لے لو جو صاف نہیں وہ چھوڑ دیں اور اس طرح رسول اللہ کے صدقے انہوں نے ہماری عرضداشت قبول کر لی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ نماز پڑھاتے ہوئے بھول گئے، جب نماز ختم ہوئی تو ایک صحابیؓ نے عرض کیا حضور آپ بھول گئے؟ آپ نے جواباً فرمایا: میں بھولا نہیں بھلا دیا گیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ جو پچھلے دنوں آپ نے فلاں حدیث بیان کی تو یہ اسامہ بن زید کے حوالے سے تھی۔ حضرت عمرؓ کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا، آپ نے شدید غلطی کی، ہم نے عرض کیا کہ آپ نے شاید حدیثیں پڑھی ہیں، لیکن اصولِ حدیث کا فن نہیں پڑھا ورنہ آپ یہ بات ہی نہ کرتے، احادیث بے شمار ہیں بعض اوقات ایک ہی واقعہ مختلف ناموں یا افراد کے حوالے سے بیان کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر محدث کا اپنا طریق ہے کہ وہ کس کی روایت کو ثقہ قرار دے، تو کسی بھی حدیث کا ایک متن نہیں ہوتا مختلف طرقِِ حدیث کے مختلف متون سامنے آتے ہیں۔ ایسے میں افراد کے نام بھی بعض اوقات بدل جاتے ہیں اور محدثین کہہ بھی دیتے ہیں کہ یہاں فلاں تھے یا فلاں لیکن ہمارے محدث قارئین اپنی عالمانہ وجاہت سے ہمیں دبا لیتے ہیں۔ ایسا ہی اشعار کا حال ہے اگر کسی شخص کے حافظہ میں ہزاروں اشعار عربی، فارسی، اردو، ہندی، سرائیکی، پشتو وغیرہ کے محفوظ ہوتے ہیں تو بعض اوقات انسانی کمپیوٹر کرپٹ بھی ہو جاتا ہے اور کوئی مصرع، شعر غلط لکھ جاتا ہے یا شاعر کا نام درست نہیں لکھ پاتا لیکن ہم ٹھہرے ایسے لوگ کہ دریا میں شہتیر کو نہیں دیکھتے تنکے کو پکڑ لیتے ہیں۔ بہرحال اہل علم و تحریر کو پھر بھی کمال حزم و احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ ایک مرتبہ ایک محترم نے کہا آپ کی فلاں تحریر میں فلاں غلطی تھی۔ ہم نے گزارش کی آپ کو ساری تحریر میں کوئی ٹھیک بات بھی نظر آئی تو فرمانے لگے ہاں، ہم نے عرض کیا اس کا تو آپ نے ذکر تک نہ کیا۔ نظر آخر غلط بات پر ہی کیوں ٹکتی ہے۔ قارئین کا پورا حق ہے کہ وہ لکھنے والے پر تنقید کریں اسے فون پر ہراساں کریں اور اگر اور آگے جانا چاہیں تو شکایت بھی لگا دیں بس اتنا ہو گا کہ مالکان ایک ملازم کو فارغ کر دیں گے اور اس طرح جہاں کئی کروڑ بھوکے اس ملک میں موجود ہیں ان میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا۔ موضوع کی مناسبت سے ایک ضروری گزارش رہ گئی ہے کہ ہمارے حکمران جو اچھی انگریزی اور بھلی اردو بھی جانتے ہیں اور انگریزی کے جوہر تو 10 ڈاﺅننگ سٹریٹ سے لے کر وائٹ ہاﺅس تک دکھائے جا چکے ہیں۔ وہ ہر چیز استعمال کر لیتے ہیں مگر ترجمان سے کام نہیں لیتے۔ یہ جو مغرب ہمارے ساتھ کئی ناکردنیاں کرتا ہے ان میں ہمارے فاضل حکمرانوں کی ناکردنیاں بھی شامل ہیں۔ اللہ جانے وہ کیا کہتے ہیں، یہ کیا سمجھتے ہیں اور کیا سمجھاتے ہیں کہ ”زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمیدانم“ ہم نے ایک ایرانی لڑکی سے پوچھا: از کجائی؟ آپ کہاں کی رہنے والی ہیں، تو اس نے بزبان حافظ شیراز جواب دیا ”از خاکِ پاک شیراز“ میرا تعلق شیراز کی پاک مٹی سے ہے۔ ادھر یہ عالم ہے کہ اپنی پاک مٹی کو ناپاک کرنے کا کوئی جتن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ غلطیہائے مضامین کی بات چھوڑیں غلطیہائے حکمرانی و سیاست کی بات کریں۔ 18 کروڑ عوام کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آئندہ انتخابات میں ووٹ کس کو دینا ہے کیونکہ دستیاب مال سارا امریکی ہے اور امریکہ نے نائن الیون کے بہانے مسلم امہ کا بھرکس نکال دیا ہے۔ صرف وہ مسلمان محفوظ خوشحال اور فارغ البال ہیں جن کو امریکہ نے اپنی لیبارٹریوں میں تیار کیا اور ہم پر مسلط کر دیا۔ عالمی منڈی میں جب کوئی چیز سستی ہو تو ہمارے حکمران اسے اور مہنگا کر دیتے ہیں اور اگر مہنگی ہو تو بھی اور مہنگی کر دیتے ہیں یہ وہ غلطیاں ہیں جن کا سرے سے کسی مضمون سے تعلق ہی نہیں۔ گویا یہ غلطیہائے بے مضمون یا بے پر کی ہوتی ہیں۔ اصل کام ہے قوم کو علم کے ذریعے جگانا، تربیت دینا، تبدیلی لانا، حالات میں سدھار پیدا کرنا لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ غلطیہائے مضامین کا دائرہ کار میکدوں اور مے خواروں تک بھی پھیل گیا ہے۔ سنا ہے ایک مے نوش نے دوسرے قدرے کمزور بلانوش کو پھینٹی لگا دی کہئے اگر علم کی راہداریوں میں بھی ایسے نازیبا واقعات رونما ہوں گے تو علم کی آبیاری کا سامان کون کرے گا اور قوم کو باخبر کون رکھے گا۔ یہ بھی ہماری ایک طرح کی غلطی مضمون ہی ہے کہ ہم نے اپنے سے طاقتور قوتوں کے ساتھ مقابلہ لگا لیا ہے جبکہ پہلے علم و عمل کے ذریعے خود کو اس قابل بنایا جاتا کہ کوئی ہماری قبا چاک کرنے کی جرات نہ کر سکتا۔
غلطیہائے مضامین نہ پوچھ
Sep 26, 2012