مانیں یا نہ مانیں

Sep 26, 2013

احسان شوکت

صحافیوں کی ایک ٹیم جیل کا دورہ کر رہی تھی۔ایک کوٹھری میں ایک ایسے صاحب بھی بند تھے ۔جو شکل سے خاصے شریف اور مسکین دکھائی دے رہے تھے۔ایک صحافی نے جیلر سے پوچھا ۔اس شخص نے کیا جرم کیا ہے ؟۔اس نے کوئی جرم نہیں کیا،جیلر نے جواب دیا۔دراصل اس نے ایک دہشت گرد کو فائرنگ کر کے متعدد افراد کو قتل کرتے دیکھا تھا۔یہ اس واقعہ کا اکلوتا چشم دید گواہ ہے،اسے جان کا خطرہ ہے۔اس لئے اسے حفاظت کے پیش نظر یہاں جیل میںر کھا گیا ہے ۔اور وہ دہشت گرد کہا ں ہے ؟،دوسرے صحافی نے سوال کیا۔وہ ضمانت پر رہا ہو چکا ہے،جیلر نے اطمینان سے جواب دیا ۔پولیس کی ایسی ہی ساکھ کی وجہ سے زیادتی کا شکار بننے والی مغلپورہ کی بچی کی تین سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کرنے کے باوجود بھی ملزم کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔آپ مانیں یا نہ مانیں ۔
اسی فوٹیج کی وجہ سے ہی ہماری پولیس کی” فرضی“ کارکردگی متاثر ہوئی ہے اور پویس تاحال ملزمان کا سراغ لگانے میں ناکام بلکہ بے بس نظر آرہی ہے۔ورنہ اب تک تو پولیس نے کسی بھی ایرے غیرے کو سر پر نقاب چڑ ھا کر بطور ملزم میڈیا کے سامنے پیش یا پھر پولیس مقابلے میں پار کر کے سرخرو ہو چکے ہونا تھا۔ مگر فوٹیج میںبچی کو ہسپتال لانے والے شخص کی نشاندہی ہی پولیس کی ”کارکردگی“میں رکاوٹ ہے ۔اب ہم پولیس کی اصل کارکردگی کی جانب آتے ہیں ۔صورتحال یہ ہے کہ پولیس حکام نے بچی کے ساتھ درندگی کے اتنے سنگین واقعہ کا سراغ لگانے کیلئے کوئی اعلی سطحی یا پھر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم سرے سے ہی تشکیل نہیں دی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے بچی سے زیادتی کے واقعہ پر نوٹس پرآئی جی پنجاب راتوں رات اسلام آباد پہنچے اورصبح انہیں سیلوٹ مار کر واپس لاہور آگئے۔ مگراتنے دن گزرنے کے باوجود تاحال پیش رفت صفرہے ۔اس سانحہ پر پوری قوم سکتے کی کیفیت سے دوچار ہے ۔اس واقعہ کو سوچتے ہی آنکھوں سے آنسو چھلک آتے ہیںمگرمیڈیا کے سامنے ملزمان کے قریب پہنچنے اور انہیں جلد قانون کی گرفت میں لانے کے دعوے دار ڈی آئی جی آپریشنز لاہور دو ہفتے کے لئے ناروے چلے گئے ہیں۔ ملزمان کا سراغ لگانے کے لئے سی آئی اے پولیس اور انوسٹی گیشن پولیس سول لائن ڈویژن آپس میں کوآرڈنیشن کی بجائے اپنے اپنے طورٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے ۔مگر بے سود ۔قانون کے رکھوالوں کے بلندو بانگ دعوو¿ں کے بر عکس ملزمان تاحال ان کی گرفت سے آزاد ہیں ۔پولیس سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ جس دن بچی اغواءہوئی تھی ۔اس روز ورثاءنے مقامی تھانے میں اطلاع کی تھی تو پھر پولیس حرکت میں کیوں نہ آئی؟۔اگر پولیس اسی وقت ایکشن لے لیتی تو شائد یہ سانحہ رونما ہی نہ ہوتا۔ پولیس حکام نے تو سانحہ جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے گھر نذر آتش ہونے پرچیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس پرہٹائے جانے والے افسران کو دوبارہ لاہور میں پرکشش عہدوں پر تعینات کرنا شروع کر دیا ہے۔ہم پانی سر سے گزر جانے کے باوجود بھی ہوش میں نہیں آتے۔بچی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کے بعد بیرونی امداد پر پلنے والی نام نہاد این جی اوزکا شرمناک کردار بھی سامنے آیا ہے ۔این جی اوز بچی کے ساتھ انصاف کا مطالبہ اور احتجاج تو کر رہی ہیں مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ ایسے سفاک درندے کوموت کی سزادی جائے تواین جی اوز مافیا کی رگوں میں دوڑتا خون فوراسفید ہو جاتا ہے اور وہ اپنے بیرونی آقاو¿ں کی زبان بولنے لگتی ہیں کہ بچی کو انصاف ملے مگر وہ موت کی سزا کے خلاف ہیں ۔ انہیں اپنی آنکھوں پر بندھی لالچ کی پٹی اتار کر حب الوطنی کی عینک سے وطن عزیز کو دیکھنا ہو گا ۔ بصورت دیگرمکھی ساراخوبصورت جسم چھوڑ کرہمیشہ زخم پر ہی بیٹھتی ہے۔

مزیدخبریں