یہ درست ہے کہ اس وقت ہمارا ملک مسائل کے گرداب میں پھنسا اور مصائب کے بھنور میں الجھا ہوا ہے۔ مسائل کا ایک کوہ گراں ہے جن کے حل کے لئے پہلے درست تشخیص ضروری ہے۔ درست تشخیص کے بغیر اصلاح ممکن نہیں اور علاج کی کوئی کوشش و کاوش کارگر و بارآور نہیں ہو سکتی۔ ہمیں یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرنا ہو گی کہ قیام پاکستان کے بعد پہلی پسپائی مسئلہ کشمیر پر اختیار کی گئی تھی۔ اگر اس وقت پسپائی کا یہ راستہ نہ چنا جاتا یا کم از کم فوری طور پر پسپائی کے اس راستے کے سامنے بند باندھ دیا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ جس شخص کو اس کا دشمن دبوچ لے، نیچے گرا دے، اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے، اس کی شہ رگ جکڑ لے اور جکڑتا ہی چلا جائے۔ اس شخص کی زندگی اور عزت کی کوئی ضمانت نہیں۔ بھارت 67 سال سے ہماری شہ رگ کشمیر کو دبوچے اور جکڑے ہوئے ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے شہ رگ کو پنجہ ہنود سے چھڑانے اور آزاد کرانے کی کبھی کوئی سنجیدہ، موثر اور مضبوط کوشش نہیں کی۔ مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف سے دستبرداری نے ہمیں دنیا میں بے اعتبار، بے وقار اور کمزور کر دیا اور اقوام عالم میں ہمارے بارے میں جاگزیں ہو گیا کہ پاکستان اپنے موقف پر ڈٹ جانے اور اصولوں پر قائم رہنے والا ملک نہیں۔ اقوام کے عروج و زوال اور شکست و ریخت کی تاریخ بتاتی ہے کہ سچے اصول اور مضبوط موقف.... قوموں اور ملکوں کے دفاع و استحکام کے لئے پختہ حصاروں اور آہنی فیصلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اصولوں سے دستبرداری اور موقف سے پسپائی سے قوموں کے گرد قائم فکری، نظریاتی، اعتقادی حصاروں اور فصیلوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں۔ نظریاتی سرحدوں میں پڑنے والے شگاف جغرافیائی سرحدوں کی شکست و ریخت سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جب قوموں اور ملکوں کے گرد قائم نظریاتی حصار ٹوٹ جائیں اور فصیلیں زمین بوس ہو جائیں تو لوگ ان میں رستے بنا لیتے ہیں۔ پاکستان اس وقت کچھ ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہمارے موجودہ مسائل کی جڑیں مسئلہ کشمیر کے ساتھ پیوست ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے اور اقوام عالم میں اپنا وقار و احترام بحال نہیں کر سکتے۔
پاکستان اہل کشمیر کا وکیل ہے اور وکالت کا یہ حق اقوام عالم نے UNO کے ذریعے پاکستان کو سونپا ہے۔ پاکستان اصولی اور اخلاقی طور پر تحریک آزادی کشمیر کی مدد و حمایت کا پابند ہے۔ ہمارے بعض دانشور کہتے ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے کشمیر کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی....؟ ہم ان دانشوروں سے کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔ اس بات کا تصور ہی روح کو لرزا اور دلوں کو تڑپا دینے والا ہے کہ اگر پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر کا خطہ آزاد نہ ہوا ہوتا تو آج برہمن کوہالہ پل کی بلندی پر کھڑا پاکستان میں تانک جھانک کر رہا ہوتا۔ بھارتی سینا آزاد جموں و کشمیر کے بلند و بالا پہاڑوں پر قابض ہوتی اور پاکستان کے لئے اپنا دفاع کرنا مشکل تر ہو جاتا۔ پھر نہ کہوٹہ ایٹمی پلانٹ موجودہ جگہ بن پاتا اور نہ اسلام آباد کی تعمیر ممکن ہوتی۔ علاوہ ازیں ہمارے لئے ایک سنگین تر مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے وہ دریا ہیں جن پر بھارت قابض و مسلط ہے۔ وہ جب چاہتا ہے آبی دہشت گردی کرکے ہمارے کھیتوں، کھلیانوں، لاکھوں ایکڑ زرعی زمینوں، لاکھوں نفوس پر مشتمل آبادیوں کو ڈبو دیتا ہے اور جب چاہتا ہے پانی بند کرکے قحط سالی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ آبی دہشت گردی کے ساتھ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔ برہمن کی دہشت گردی سے بھارت میں بسنے والے مسلمان محفوظ ہیں نہ کشمیری اور نہ پاکستانی۔ اہل کشمیر کے ساتھ ہمارا جغرافیائی اور لسانی رشتہ ہی نہیں بلکہ دین اور ایمان کا رشتہ بھی ہے جو دنیا کے تمام رشتوں سے مضبوط اور پختہ تر ہے۔ ان حالات میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ
جناب وزیراعظم! کیا آپ بھول گئے آپ کے آباﺅ اجداد ڈوگرا دور میں ریاست جموں کشمیر سے ہجرت پر کیوں مجبور ہوئے تھے....؟ صرف اس لئے کہ اس دور میں ریاست میں مسلمانوں کی عزت محفوظ تھی نہ آبرو نہ ایمان اور نہ جان و مال۔ وہ ایسا دور تھا جب گھروں میں ایک سے زیادہ روشندان بنانے اور ایک سے زیادہ چولہا رکھنے پر بھی ٹیکس لگتا تھا۔ ڈوگروں کے مظالم ایسے تھے کہ جنہیں زبان بیان کرنے اور قلم احاطہ تحریر میں لانے سے قاصر ہے۔ یہ حالات تھے جب ریاست سے لاکھوں مسلمان امرتسر، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لاہور کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔
ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کا وطن آج بھی اسی طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ آج بھی ان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید اور مساجد کی توہین کی جا رہی ہے اور جن سینوں میں قرآن مجید محفوظ ہیں انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے۔ آج بھی کشمیری مسلمانوں کی ہڈیوں کو توڑا، خون کو نچوڑا، ان کو مصائب و شدائد کی چکی میں پیسا اور ان کی عزتوں، عصمتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ آج بھی ان کی عزت محفوظ ہے نہ ایمان اور نہ جان و مال۔ جب آپ نے اقتدار سنبھالا تو ستم رسیدہ، رنجیدہ اور برہمن گزیدہ کشمیری مسلمانوں میں امید اور حوصلے کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی تھی۔ خیال تھا کہ آپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کشمیری مسلمانوں کے دکھ درد کم ہوں گے، مقبوضہ وادی میں ہونے والے مظالم کے خلاف آپ ضرور آواز بلند کریں گے اور مسئلہ کشمیر کے نتیجہ خیز حل کے لئے آپ سفارتی اور اخلاقی سطح پر تمام کوششیں بروئے کار لائیں گے لیکن وہاں بھارتی مظالم پہلے سے بڑھ چکے ہیں۔ LOC پر بھی بھارتی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری سے اب تک سیالکوٹ سیکٹر سے لے کر گلگت تک 200 سے زائد مرتبہ بھارتی فوج سرحدی خلاف ورزیاں کر چکی ہے۔ آپ ایک دفعہ بھارت کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں تو جواب میں بھارتی فوج 10 دفعہ آپ کی مذاکرات کی پیشکش کا جواب گولیوں سے دیتی ہے۔
آپ کی اس مداہنت آمیز پالیسی کی وجہ سے سید علی گیلانی سمیت حریت کانفرنس کی تمام قیادت اور کشمیری قوم سخت تحفظات، تذبذب اور مایوسی کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ تذبذب اور گومگو کی کیفیت سے نکلیں۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کریں۔ ایک واضح، جامع قومی پالیسی تشکیل دیں جو اسلام کی اساس، بانی پاکستان کی خواہشات، کشمیر و پاکستانی قوم کے جذبات کی آئینہ دار اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہم آہنگ ہو۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے اس یکسوئی اور تسلسل کی ضرورت ہے جس کی بدولت پاکستان ایٹمی ملک بنا تھا۔ یہ بات معلوم ہے کہ ایٹمی پروگرام ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا اس کے بعد جب ضیاءالحق برسر اقتدار آئے تو انہوں نے اگرچہ بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا لیکن ان کے شروع کردہ ایٹمی پروگرام میں تعطل اور تبدیلی کو گوارا نہ کیا۔
بے نظیر اور نواز شریف کے پہلے دونوں ادوار میں باہم سخت مخالفت، مخاصمت اور عداوت رہی مگر ایٹمی پروگرام اسی تسلسل سے آگے بڑھتا رہا اس تسلسل اور یکسوئی کا نتیجہ تھا کہ آخر کار.... پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ مسئلہ کشمیر بھی اسی تسلسل، یکسوئی اور توجہ کا متقاضی ہے۔ اس کی اہمیت ایٹمی پروگرام سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ یہ باز بچہ اطفال نہیں کہ جس کے ساتھ ہر برسر اقتدار آنے والی جماعت اٹھکیلیاں کرتی رہے۔ یہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے تو کشمیر پالیسی کے معمار بانی پاکستان تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا شروع کردہ ایٹمی پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچ گیا مگر بانی پاکستان کا کشمیر کی آزادی کا خواب ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ حالانکہ وہ بستر مرگ پر بھی کشمیر کی آزادی کے لئے فکرمند تھے۔ کشمیر کی آزادی ان کی زندگی کی آخری خواہش تھی۔ جناب وزیراعظم! آپ مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں اور آپ اپنی جماعت کی نسبت بانی پاکستان کی طرف کرتے ہیں۔ اس نسبت سے کشمیر کی آزادی کے لئے تمام کوششیں بروئے کار لانا اور مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہش و منشا کے مطابق حل کروانا.... آپ پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔