خدا کا شُکر!!

لوگ کہتے ہیںخدا کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ بجا فرمایا ،قران ِ پاک کی آیت بھی یہی ہے "اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے "؟
خدا کی بنائی کائنات میں بہت حسن ،بہت نعمتیں بکھری ہوئی ہیں ۔ انہیں حاصل کرنے والے اور استعمال کرنے والے خدا کا شکر ادا کررہے ہیں ۔ ایک آدمی کو خدا نے مواقع دیئے اور اس نے بہت دولت کمائی ،اس کے پاس چھ گھر ہیں ۔ آٹھ گاڑیاں ہیں ،سوئمنگ پول ہے نوکروں کی فوج ہے اور بنک میں زیوارت اور پیسے ہیں ،وہ بار بار کہتا ہے الحمد اللہ ۔۔ اُس کے نوکر کے پاس ایک بھی گھر نہیں ایک بھی گاڑی نہیں ، زیور دُور کی بات تن ڈھانپنے کو کپڑا بھی نہیں ،اور اس کے گھر میںسوئمنگ پول نہیں بلکہ اس کا گھر ہی سوئمنگ پول ( چھپڑ)ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اُسے بھی شکر ہی ادا کرنا چاہیے ۔ پہلے والے شخص جسے خدا نے بہت کچھ دیا ، وہ اپنے سے کمتر کو دیکھ کر اورزیادہ رب کا شکر کرتا ہے ۔صحت مند اس وقت تک خدا کا شکر ادا نہیں کرتا جب تک وہ کسی بیمار شخص کو نہیں دیکھ لیتا ۔ خدا کی نعمتیں دولت ، رزق ، صحت ،ذہانت ،حکومت ،عزت، عہد ہ مرتبہ اور شہرت ان سب کی قدر ہم اس وقت تک نہیں کرتے جب تک ان سے محروم شخص کو نہیں دیکھ لیتے۔کیا یہ sadist رویہ نہیں ہے ۔ ؟ رب نے نعمتیں دیں تو شکر کرنے کا ایک طریقہ بھی بتایا "اخوت اور مساوات "آپ چھ گھر رکھ کر خدا کا شکر تو ادا کر سکتے ہیں مگر خدا کی ان نعمتوں کا حق یوں ادا نہیں کر سکتے۔ حق ادا تب ہو جب آپ ان نعمتوں کو خدا کی طرف سے آزمائشیں سمجھیں اور معاشرے میں برابری اور انصاف پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ قائد اعظم نے بھی1943میں کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے نئی دہلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :
"یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوںکہ وہ ایک ایسے ظالمانہ اور شر پسند نظام کی پیداوار ہیں ،جس کی بنیادیں ہمارے خون سے سینچی گئی ہیں۔عوام کا استحصال خون بن کر ان کی رگوں میں گردش کر رہا ہے ،اس لئے ان کے سامنے عقل اور انصاف کی کوئی دلیل کام نہیں کرتی ۔ہمارے ہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں ،جنہیں انتہائی مشقت کے باوجود صرف ایک وقت کی روٹی میسر ہے ۔کیا یہ ہے ہماری شاندار تہذیب ؟کیا پاکستان کا مطلب یہ ہے ؟کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ لاکھوں مسلمان معاشی ظلم کا شکار ہوکرایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے رہیں؟اگر پاکستان کا مطلب یہ ہوگا تو میں باز آیا ایسے پاکستان سے "
 حکومت چلانے والے کیا کر رہے ہیں اس پر بات بعد میں ہوگی پہلے عوام ایک دوسرے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ؟ اگر ہمسائے پر ،اپنے رشتے دار پر جیسا کہ اسلام میں بھی اور ہر مذہب میں بھی حکم ہے آپ کی نظر صرف اسلئے ہے کہ آپ مقابلہ کر کے صرف رب کا شکر ہی ادا کر پائیں تو معاف کیجئے گا آپ اس آزمائش پر پورے نہیں اترے جو اللہ نے نعمتیں دے کرآپ پر ڈالی ہے ۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان میں آج پھر ایک شیخوپورہ کے لیکچرر کی بیوی اپنی دو سال کی بچی کو لے کر دریا میں نہ کود جاتی۔کچھ دن پہلے پانچ بہنیںجہیز نہ ہونے کی وجہ سے دریا میں چھلانگ نہ لگا دیتیں ، رکشے والا بھوک سے تنگ آکر اپنی بیٹی کو دریا برد نہ کر دیتا اور ہم ان خبروں پر صرف رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں سے بہت بہتر ہیں جو خود کشیاں کر رہے ہیں کسی نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ کیسے ہمسائیوں اور رشتہ داروں نے یہ نوبت آنے دی ؟لوگ بھوک سے مرجائیں اور ہمسایہ اور رشتہ دار اللہ کا شکر ادا کر تا رہ جائے کہ شکر ہے کہ اس کے ہاں یہ نوبت نہیں آئی ان اموات پر کسی ہمسائے ،کسی رشتے دار نے اپنے آپ کو کوسا ہوگا ؟ دکھ بھی نہیں کیا ہوگا بس خالی آنکھوںسے پانی سے پھولی لاشیں دیکھی ہونگی....
مزاجوں میں یاس آگئی ہے ہمارے
نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی خوشی
خود کشی حرام مگر اسلامی معاشرے میں ہورہی ہے۔ بچہ آپ کے پاس اللہ کی امانت کس سے پوچھ کر اور کس حق سے آپ اس کی جان لے رہے ہیں ؟ کون ذمہ دار ہے ؟ کون قاتل ہے ان معصوم بچوں کا جو اپنی مرضی سے دنیا میں نہیں آئے تھے مگر ان کو جینے کا پورا اختیار تھا۔دو دو سال کی بچیاں دریاﺅں میں بہائی جانے لگیں مگر شکر ہے میری بچی اعلی درجے کے سکول میں پڑھ رہی ہے ، شکر ہے میری بچی اچھا کھاتی پہنتی اوڑھتی ہے ، شکر ہے میری بچی صحت مند ہے ۔۔ان بچیوں کو اپنے ہی ماں باپ سے مار دیئے جانے کی خبر پر اس سے بڑھ کر اور کوئی کیا سوچتا ہوگا ؟ کسی خوشخال بچیوں والے نے آئندہ سے غریب بچیوں کے لئے اس معاشرے میں مساوات اور انصاف کا نظام لانے کے طریقے پر غور نہیں کیا ہوگا ۔خود کشی سے خود کش حملہ آواروں تک ۔۔سب کی جڑیں ناانصافی اور غیر مساوی رویوں سے جا ملتی ہیں ۔ دہشت گرد چاہے مذہب ، قومیت یا کسی بھی مقصد کا ظاہری نقاب پہن لے ۔۔وقت کی صراحی میں سے بُوند بُوند واقعات یہی بتائیں گے کہ معاشی ناانصافی اور استحصال ہر ظلم کی جڑ ہے ۔ حسن عباس رضا کے مطابق :....
تری سلطنت کے عوام ترے غلام ہیں
انہیں رکھ تو جوتی کی نوک پر مرے بادشاہ
حکمران یہی کر رہے ہیں ۔اشرافیہ بھی یہی کر رہی ہے ۔ غریب سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔غریب دنیا سے منہ موڑ لیتا ہے، کبھی خود کشی کر کے کبھی خود کش حملہ کر کے۔خود کشی کرنے والا یا والی اپنا ایک آدھا بچہ ساتھ مار رہے ہیں ۔خود کش حملہ کرنے والے لاکھوں لوگوں کو ساتھ مار رہے ہیں ۔منظر پر آنے والی وجوہات مختلف مگر پسِ منظرنظارہ سب کا ایک سا ۔۔گھر کھانے کو روٹی نہیں ، ماں بیمار ، بیٹی کا جہیز اور تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں ۔جو بھی پیسہ دے گا اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ دنیا میں نہ سہی اگلے جہاں کی خوشی کے وعدے پر چل پڑیں گے ۔
نہ مندر محفوظ ،نہ چرچ ، نہ مسجد اور سب سے بڑھ کر غیر محفوظ انسان ۔ ریاست کے سب ادارے ناکام ۔ لوگ ناکام ، فکر ناکام ۔اب آپشن ہے Do or die۔عوام اور حکومت دونوں کو اکھٹے جاگنا ہوگا ۔ اعلان نہیں پالیسی بنانا ہوگی ۔ ورنہ....

ای پیپر دی نیشن